اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی جنگ ’دہشت گردوں‘ کے تعاون سے
22 اگست 2014شمالی عراق میں کرد علیحدگی پسندوں کی کالعدم جماعت کردستان ورکرز پارٹی یا PKK اس وقت اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف فعال ہے لیکن اس کے ترک حکومت کے ساتھ امن مذاکرات بھی جاری ہیں۔
پی کے کے کو عراق کے تنازعے میں نیا کردار مل گیا ہے۔ ساتھ ہی اب اس پارٹی کی طرف سے امریکا اور یورپی یونین پر دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ان فیصلوں پر نظرثانی کریں، جن کے تحت PKK کو ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم قرار دیا گیا تھا۔ کردستان ورکرز پارٹی تین عشروں تک ترک ریاست کے خلاف مسلح بغاوت میں مصروف رہی۔ ترکی میں تو وہ ریاست کی سب سے بڑی دشمن تصور کی جاتی ہے۔
خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق اب پی کے کے کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کے خلاف اس تنظیم نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس نے آئی ایس کی طاقت کو کمزور کیا۔ اس کے بعد ہی امریکا نے وہ فضائی حملے شروع کیے جن کا مقصد اس سنی عسکریت پسند تنظیم کو مزید کمزور کرنا ہے۔
روئٹرز کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے خلاف عراق میں جاری کارروائیوں میں پی کے کے کی شمولیت کا اثر ان حریف کرد گروپوں پر بھی پڑے گا جو آئی ایس کے جہادیوں کی پیش قدمی روکنے میں ناکام رہے تھے۔ ساتھ ہی اس کا اثر لازمی طور پر ترکی اور بین الاقوامی برادری پر بھی پڑے گا، جن کو اپنے گزشتہ فیصلوں پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کرنے کی خاطر کردستان ورکرز پارٹی کی طرف سے لابی کی جا رہی ہے۔
عراق میں امریکی حکمت عملی اور کردوں کی سیاست کے اس نئے پہلو کی مثال دیتے ہوئے روئٹرز نے لکھا ہے کہ روجھات ایک ایسا کرد جنگجو ہے، جس کی عمر 33 برس ہے۔ وہ ماضی میں اپنی پارٹی کی مسلح کارروائیوں میں دو مرتبہ حصہ لے چکا ہے۔ پہلی دونوں کارروائیوں میں دو ترک فوج کے خلاف لڑا تھا۔ ابھی حال ہی میں اس نے اپنی زندگی میں تیسری مرتبہ ایک مسلح لڑائی میں حصہ لیا۔ یہ لڑائی شمالی عراق میں لڑی گئی تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں کرد فورسز شمالی عراقی شہر مخمور سے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کو نکال کر اس شہر پر دوبارہ قابض ہو گئیں تھیں۔ مخمور کی لڑائی میں روجھات زخمی ہو گیا تھا۔ وہ اس وقت عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
کردستان ورکرز پارٹی کے اس رکن کو یقین ہے کہ کرد اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کو شکست دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اس نے اربیل کے ایک ہسپتال میں علاج کے دوران روئٹرز کو بتایا، ’’یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کو ختم نہیں کر دیتے۔‘‘
PKK کے مسلح علیحدگی پسندوں نے ترک ریاست کے خلاف اپنی بغاوت کا آغاز 1984ء میں کیا تھا۔ قریب تین عشروں میں یہ تنازعہ 40 ہزار انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنا۔
مارچ 2013ء میں PKK نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس پارٹی کا رہنما عبداللہ اوئچلان کئی سالوں سے ترکی کی ایک جیل میں قید ہے۔
روئٹرز نے ایک یورپی سفارت کار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ بات بذات خود ایک تضاد ہے کہ ایک ایسی تنظیم نے، جسے یورپ اور امریکا دہشت گرد قرار دے چکے ہیں، اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کے خلاف کوششوں میں اتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔