اعلیٰ امریکی عدالت نے بلیک واٹر محافظوں کی سزائیں ختم کر دیں
5 اگست 2017پرائیویٹ سکیورٹی فراہم کرنے والی تحلیل شدہ امریکی کمپنی بلیک واٹر کے چار محافظوں نکولس سلیٹن، ایوان لبرٹی، پال سلو اور ڈسٹن ہیرڈ کو ماتحت عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دی گئی ہیں۔ ایک اعلیٰ امریکی عدالت نے سزاؤں کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے ان گارڈز کے لیے نئی سزائیں سنانے کا حکم جاری کیا ہے۔
’عراق میں قتل عام ‘بلیک واٹر کے سابق اہلکاروں کو سزائیں
سی آئی اے نے بلیک واٹر کا معاہدہ منسوخ کر دیا
مشرقی یوکرائن میں امریکی نجی سکیورٹی کمپنی کے فوجی: جرمن اخبار کا انکشاف
افغانستان: پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں پر کھینچا تانی
عدالت نے خاص طور پر نکولس سلیٹن کو کہا کہ وہ اپنے دفاع میں نئے ثبوت پیش کرے۔ نکولس سلیٹن کو عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سلیٹن کے دیگر تین ساتھیوں کو لازمی تیس برس کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
اس مقدمے کا یہ پہلو انتہائی اہم ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران وکلائے استغاثہ اور صفائی کے دلائل میں قتل کے محرکات کی متضاد توجیہات پیش کی گئی تھیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق امریکی اپیل کورٹ کی جانب سے سزا ختم کرنے کی یہ سب سے بنیادی وجہ قرار دی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بلیک واٹر کے محافظوں کی جانب سے قتل کی بنیادی وجوہات بدستور مخفی ہیں اور اُن کے مناسب جوابات سامنے نہیں لائے جا سکیں ہیں۔
وفاقی استغاثہ کے مطابق ان گارڈز نے غیر مسلح سویلین پر حملہ کر کے گولیاں چلائی تھیں جبکہ وکلائے صفائی کا کہنا ہے کہ گولیاں اُس وقت چلائی گئی تھیں جب ایک بارود سے بھری کار اُن کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اور یہ سب ذاتی حفاظت میں کیا گیا۔
اپیل کورٹ کے مطابق اس مقدمے میں بلیک واٹر کے تین کنٹریکر پال سلو، ایوان لبرٹی اور ڈسٹن ہیرڈ کو دی گئی تیس برس کی سزا میں ماتحت عدالت نے ان افراد کے دستوری حقوق کی خلاف ورزی کی تھی اور یہ غیر ضروری طور پر ظالمانہ سزائیں تھیں۔ چوتھے گارڈ نکولس سلیٹن کو قتلِ عمد کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ جو سزائیں دی گئی تھیں، وہ بینک ڈکیتیوں یا حکومتی سلامتی کے منافی اقدامات میں دی جاتی ہیں۔ عدالت نے ایوان لبرٹی کودی جانے والی غیرقانونی قتلِ کی سزا کو بھی موقوف کر دیا ہے۔
ماتحت عدالت دوبارہ اس نئے فیصلے کی روشنی میں ان مجرموں کی سزاؤں کا تعین کرے گی۔ وکلائے صفائی نے عدالتی فیصلے پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا ہے۔ اُن کے مطابق فیصلے سے اُن کے موکلین کو غیر دستوری سزاؤں سے نجات مِل گئی ہے اور اب دوسرے آپشن پر غور کیا جا سکتا ہے۔
اس مقدمے کی عدالتی کارروائی سن 2014 میں شروع ہوئی تھی اور محض چار ہفتوں میں دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔