.افریقی پناہ گزین جرمنی اور اٹلی کے مابین کشیدگی کا سبب
4 جون 2013اٹلی جانے والے لاتعداد افریقی پناہ گزین اب سڑکوں پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ صبح آٹھ بجے ہی سے جرمنی کے بندرگاہی شہر ہیمبرگ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر ہنگامی طور پر لگائے گئے خیموں میں یہ پناہ گزین جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک خیمے پر باہر کی طرف ایک بینر لگا ہے، جس پر درج ہے، ’نیٹو کے جنگ نے ہمیں پناہ گزین بنا دیا ہے۔ ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘ اس خیمے میں نائجیریا کا ایک 31 سالہ نوجوان فرائیڈے بھی بیٹھا ہے۔ یہ ایک ماہ سے کچھ ہی عرصہ قبل اُس وقت جرمنی آیا تھا جب اٹلی میں ان پناہ گزینوں کے کیمپ بند کر دیے گئے تھے۔ اُسے ہیمبرگ میں شینگن کا سفری ویزا اور پانچ سو یورو نقد دیے گئے ہیں۔ اُس کے بقول یہ اطالوی حکومت کی طرف سے ہدیہ ہے۔ روم حکام نے کہہ دیا ہے کہ وہ ہم پناہ گزینوں کا معاشی بوجھ مزید نہیں اُٹھا سکتے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یورپی یونین کا پناہ گزینوں کے لیے مختص کردہ فنڈ اس سال فروری ہی میں ختم ہو چکا تھا، جس کے بعد اٹلی نے تمام کیمپ بند کردیے اور وہاں پناہ گرین حقیقی معنوں میں سڑکوں پر بے سر و سامانی کی حالت میں کھڑے دکھائی دینے لگے۔ ان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ اطالوی حکومت نے انہیں سفری دستاویزات دے کر کہا تھا کہ ان دستاویزات کی بدولت وہ یورپ کے کسی بھی ملک میں جا کر اپنی قسمت آزما سکتے ہیں۔ تاہم روم حکام نے اس کی تردید کر تے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ان پناہ گزینوں کو کبھی بھی ملک چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا۔
لیبیا میں خوشحال، جرمنی میں سر پر چھت نہیں
نائجیریا سے تعلق رکھنے والا فرائیڈے اٹلی میں دو سال گزار چکا ہے۔ وہ اب جرمنی کیوں آیا، اس کا جواب خود اُس کے پاس بھی نہیں ہے۔ اس جیسے کوئی 300 افریقی پناہ گزین، جن کی کہانیاں بھی اس کی کہانی سے ملتی جلتی ہیں، جرمنی کی اسپیشل درجہ رکھنے والی سٹی اسٹیٹ ہیمبرگ پہنچے ہیں تاہم یہ سب خائف ہیں کہ انہیں کسی بھی وقت ملک بدر کر کے دوبارہ اٹلی بھیج دیا جائے گا۔ فرائیڈے کے بقول، ’اگر ہمیں واپس جانا پڑا تو ہم جہنم رسید ہو جائیں گے۔ خدا جانے ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔‘
فرائیڈے لیبیا میں گاڑیوں کا مکینک تھا۔ وہاں وہ ایک اچھی بھلی زندگی بسر کر رہا تھا، اُسے وہ سب کچھ میسر تھا، جو وہ چاہتا تھا۔ یہی کہنا ہے ٹوگو سے تعلق رکھنے والے آفو کا بھی۔ لیبیا میں معمر قذافی کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے ان دونوں مردوں کا بیرون ملک سے تعاقب شروع ہو گیا تھا۔ ملک کے اندر انہیں قذافی کا وفادار سمجھا جاتا تھا۔ ان پر دہشت گرد ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا، جسے آفو سختی سے رد کرتا ہے۔ جرمنی میں بغیر کسی مستقل ٹھکانے کے کئی ہفتوں سے در بدر ہونے والے آفو کے اندر شدید نا اُمیدی، تھکاوٹ اور جارحیت پیدا ہو گئی ہے۔ وہ کہتا ہے، ’ہم ہر رات کسی نئی جگہ پڑاؤ ڈال کر صبح کرتے ہیں۔ کبھی کہیں، کبھی کہیں۔ ہم عملی طور پر سڑکوں پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘ انہیں ہیمبرگ میں ایک سرسبز قطعہء زمین نظر آیا، تو انہوں نے دیگر افریقی پناہ گزینوں کے ساتھ وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔ لیکن ان کا تعاقب کر کے انہیں وہاں سے بھی نکال باہر کیا گیا بلکہ انہیں تحریری طور پر دھمکی بھی ملی۔ ہیمبرگ کے اس علاقے میں انہیں ایک پرچہ بھی ملا جس پر لکھا تھا، ’اگر انہوں نے خود یہ جگہ خالی نہ کی تو انہیں زبردستی وہاں سے نکال دیا جائے گا۔‘
نہ کام کا اجازت نامہ نہ کوئی مستقبل
ہیمبرگ میں ان افریقی پناہ گزینوں کی صورتحال ایک انسانی المیے کا پیش خیمہ ہے۔ صوبائی پارلیمان نے ان خطرات کو محسوس کرتے ہوئے حال ہی میں پارلمان میں اس موضوع پر گرما گرم بحث کی۔ بائیں بازو کی جماعت دی لنکے کی سیاستدان کرسٹیانے شنائیڈر نے اس رویے کو انسانی وقار کی بے حرمتی قرار دیا۔ ادھر سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی کا اس بارے میں خیال بالکل مختلف ہے۔ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے ہیمبرگ کے سماجی امور کے سینیٹر ڈیٹلَیف شیلے کہتے ہیں کہ عارضی خیمے شہر کے لیے ٹھیک نہیں، خاص طور سے بارشوں کے موسم میں یہ کوئی حل نہیں ہیں۔ تاہم شہری انتظامیہ بہتر انتظامات کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ان افریقی شہریوں کو وہاں مہینے ڈیڑھ مہینے سے زیادہ قیام کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ان کے پاس نہ تو جرمنی میں رہائش کا اجازت نامہ ہے اور نہ ہی یہاں کام کر سکنے کا کوئی پرمٹ۔
اٹلی یا افریقہ
جرمنی میں پناہ گزینوں سے متعلقہ امور کا وفاقی دفتر کئی ہفتوں سے اطالوی حکام سے ان پناہ گزینوں کی اٹلی واپسی کے بارے میں بات چیت کر رہا ہے۔ شیلے کا کہنا ہے کہ اٹلی انہیں واپس لینا چاہتا ہے، تاہم ان کی رہائش کا پہلے مناسب بندوبست کیا جانا چاہیے۔ دی لنکے کی سیاستدان کرسٹیانے شنائیڈر کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ یہ امر سخت ناانصافی ہے کہ اٹلی 60 ہزار پناہ گزینوں کو اپنے ہاں جگہ دے جبکہ جرمنی محض چند سو کی ذمہ داری قبول کرے۔ اس مسئلے کا حل یورپی سطح پر تلاش کیا جانا چاہیے۔
K. Erdmann, km / I. Ondruskova, mm