بھارت کے مشرقی صوبہ جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی میں اسکول جاتے وقت میں مشاہدہ کرتی تھی کہ سڑک سے جب سائرن اور لال بتی والی گاڑیاں گزرتی تھیں، تو راہگیر سڑک کے کنارے با ادب کھڑے ہوجاتے تھے۔ باقی ٹریفک بھی ان گاڑیوں کے گزرنے تک رک جاتا تھا۔
معلوم ہوا کہ اس لال بتی والی گاڑی میں شہر کے ڈسٹرک مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر براجمان ہوتے ہیں۔ پاس کے چھوٹے قصبوں میں سب ڈسٹرک مجسٹریٹ یا ایس ڈی ایم اسی طرح کے طمطراق کے ساتھ باہر نکلتے تھے۔ جس دن مجسٹریٹ صاحب کو مارکیٹ یا کسی دفتر کی چیکنگ کرنے کا موڈ ہوتا، تو اس دن تو اس بازار یا دفتر میں جیسے میلہ لگا ہوتا تھا۔
جب ان افسران کو ہمارے اسکول کا دورہ کرنے کا جی کرتا تھا، تو کئی روز قبل اسٹوڈنٹس کو تیار کیا جاتا تھا۔ یونیفارم کو دھونے اور استری کرنے کا فرمان جاری ہوتا۔ ذہین بچوں کو آگے بٹھایا جاتا، تاکہ اگر مجسٹریٹ صاحب کوئی سوال پوچھیں، تو وہ فراٹے سے جواب دیں، جس سے ٹیچر اور ہیڈ ماسٹر افسر کے سامنے اپنے آپ کو سرخرو ثابت کر سکیں۔
میرا خاندان چونکہ ٹرانسپورٹ بزنس سے وابستہ تھا، تو ابتدا میں خیال تھا کہ دنیا کا طاقتور ترین شخص بس یا ٹرین کا ڈرائیور ہوتا ہے۔ پھر جب اسکول جانے لگی، تو معلوم ہوا ان سے بھی طاقتور شخص تو ٹیچر ہے، جس کو ہمارے کان کھینچنے اور ڈانٹنے کی آزادی ہے اور گھر پر بھی ٹیچر کے نام سے ڈرایا جاتا تھا۔ پھر پتہ چلا کہ ٹیچر تو خود ہی ہیڈ ماسٹر سے ڈرا سہما رہتا ہے۔
مگر جلد ہی معلوم ہوا کہ ان سب سے بھی طاقتور طبقہ بھی موجود ہے، جن کو افسران کہتے ہیں۔ ہائی اسکول اور کالج جاکر پتہ چلا کہ بیوروکریسی ہی طاقت کا سرچشمہ ہے، ان کی نگاہ ناز سے تقدیریں بدل سکتی ہیں۔ یہ حکومت کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اور اسے ملک کا اسٹیل فریم بھی کہا جاتا ہے۔
اب تو بس رات دن افسر بننے کا خواب سجائے میں بھی دارالحکومت دہلی وارد ہوگئی اور ایک کوچنگ انسٹیوٹ میں داخلہ لے کر سول سروس امتحان کی تیاری شروع کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ دنیا کے مشکل ترین امتحانات میں گنا جاتا ہے۔
ابھی حال ہی میں بھارتی دارالحکومت میں سول سروس کا خواب سجائے کوچنگ کر رہے طالب علموں کی، جس علاقے میں اموات ہوئی ہیں، اسی علاقے کے ایک کوچنگ انسٹیوٹ میں، میں نے بھی داخلہ لیا تھا۔ یہ علاقہ 1947ء میں پاکستان سے ہجرت کر آئے سکھ اور ہندو ریفوجیوں نے بسایا ہے۔
مگر اب یہ علاقہ کوچنگ سینٹرز کا گڑھ بن چکا ہے۔ قطار در قطار اس گنجان آباد علاقے میں کوچنگ سینٹرز، یا پیئنگ گیسٹ یا ہاسٹل کے لیے عمارتیں بنی ہیں۔ طالب علموں کا اتنا رش ہے کہ عمارت کے تہہ خانے، جو پارکنگ کے لیے مخصوص ہیں، وہاں بھی رہائشیں، کلاس رومز یا لائبریریاں بنی ہیں۔
اسی طرح کے ایک تہہ خانہ کی ایک لائبریری میں چند ہفتے قبل تین طلبہ کی موت ہوئی، کیونکہ بارش برسنے اور نکاسی کے ناقص انتظام کی وجہ سے اس میں پانی بھر گیا تھا۔ یہ طالب علم دریا میں نہیں ڈوبے، بلکہ لائبریری میں پڑھتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
لائبریری کے اندر بیٹھے ان طلباء نے لاکھوں روپے کی فیس جمع کروائی تھی۔ جگہ کی کمی اور پیسے کمانے کی لالچ کی وجہ ہی یہ دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ یہ تصور کرنا اتنا مشکل ہے کہ کوئی لائبریری کے اندر مطالعہ کرتے ہوئے ڈوب سکتا ہے۔
اسی وقت مجھے اپنے دہلی آنے کی کہانی یاد آگئی۔ کس طرح میں بھی اسی طرح کے ایک کوچنگ انسٹیٹیوٹ کے کلاس میں ایک اسٹول کو ایک دوسرے طالب علم کے ساتھ شیئر کرتی تھی، کیونکہ کلاس میں بھیڑ بہت زیادہ ہوتی تھی۔ نام نہاد ہوسٹل کے ایک چھوٹے سے بیڈ پر کئی طالب علم باری باری سوتے تھے۔
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ دو دہائی قبل جب میں نے دہلی آکر ان اداروں کو جس حالت میں دیکھا تھا، اتنے سالوں میں وہ ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ہزاروں طالب علم انتہائی نامساعد حالات، ڈبے جیسے کمروں میں رہ کر، تنگ اور ناقص ہوا دار کلاس رومز میں کوچنگ کرتے ہوئے سول سروس کے خواب دیکھتے ہیں۔
درحقیقت والدین کو معلوم ہے کہ اگر لاٹری لگ گئی، یعنی ان کا صاحبزادہ یا صاحبزادی سول سروس پاس کرتے ہیں، تو پھر زندگی بھر اور اگلی جنریشن کو بھی بس ملائی ہی ملائی سود سمیت کھانے کا موقع ملے گا۔ اس لیے وہ بھاری بھرکم فیس دینے کے روادار ہوتے ہیں۔
اتنا مشکل امتحان پاس کرنے کا مطلب ہے کہ بھرتی ہونے والا انتہائی قابل ہے۔ مگر کیا اس سے سسٹم میں بد عنوانی یا نا اہلی کم ہوئی ہے؟
جب نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا، تو بتایا گیا تھا کہ اس سے رٹہ لگا کر پاس ہونے والی روایت کا خاتمہ ہو جائے گا اور طالب علم کو عملی دنیا کے لیے تیار کیا جائے گا۔آج بھارت میں کوچنگ کا ادارہ پانچ بلین روپے سے زیادہ کی صنعت بن چکا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اس معاملے پر کھل کر بحث ہو۔ سول سروس میں آنے اور افسر تیار کرنے کا کوئی اور معقول طریقہ ڈھونڈا جائے۔ والدین کے لیے بھی لازم ہے کہ بچوں پر نفسیاتی دباؤ نہ ڈالیں کہ وہ افسر بننے کے خواب کے علاوہ دیگر سبھی خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ اسی وجہ سے ذہین ہونے کے باوجود ناکام ہو جانے والے طالب علموں میں خود کشی کرنے کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔
میرا ان کو مشورہ ہے کہ دنیا بہت وسیع ہے اور ہر شعبہ کے لیے ذہین اشخاص کی ضرورت ہے۔ بقول اقبال۔۔۔
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں