افغان مہاجرین کا بحران پولستانی سرحد تک پہنچ گیا
1 ستمبر 2021
منگل کو پولش حکومت نے ملکی صدر سے مطالبہ کیا کہ وہ بیلا روس کے ساتھ ملکی سرحد پر ایمرجنسی یا ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیں۔ اس کا مقصد پولینڈ کے پڑوسی ممالک کی سرحدوں کی طرف سے غیر قانونی تارکین وطن یا مہاجرین کے پولینڈ کی طرف بہاؤ کو روکنا ہے۔ حکومت نے غیر ملکی عناصر کے ممکنہ خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے پولینڈ میں مظاہرین کے اقدامات کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔
یورپ کو افغان مہاجرین کے باعث ممکنہ بحران سے خوف
پولینڈ اور بیلاروس کی سرحد پر کئی ہفتوں سے غیر قانونی مہاجرین کی بڑی تعداد کا بڑھتا ہوا سیلاب گہری تشویش کا سبب بنا ہوا ہے۔ دریں اثناء افغانستان کے 30 سے زائد مہاجرین گزشتہ تین ہفتوں سے بھی زیادہ عرصے سے ایک طرف بیلاروس کے سکیورٹی گارڈز اور دوسری جانب پولینڈ کی مسلح افواج کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ بیمار ہیں اور ان کی خوراک تک رسائی بھی محدود ہے۔ اب موسم خراب ہونا شروع ہو گیا ہے، بارشوں کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں کمی ان مہاجرین کے لیے اضافی مسائل لے کر آیا ہے۔
پولینڈ کو مہاجرین کی آمد کا سامنا
یورپی یونین کا رکن ملک پولینڈ گزشتہ چند ہفتوں سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو اپنی سرحد عبور کرنے سے روکنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے مہاجرین میں سے بیشتر کا تعلق عراق اور افغانستان سے ہے۔ پولش حکام اس کا ذمہ دار بیلاروس کے آمر صدر الیکسزانڈر لوکاشینکو کو ٹھہرایا ہے۔ وارسا حکومت کا کہنا ہے کہ لوکاشینکو غیر قانونی تارکین وطن یا مہاجرین کو پولینڈ کی سرحدوں کے اندر دھکیلنے کی کوشش میں ہیں، جس کا مقصد یورپی یونین کے اندر عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔
یونان افغان مہاجرین کو اپنی سرحد سے گزرنے کی اجازت نہیں دے گا
دریں اثناء وارسا میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پولستانی وزیر اعظم ماتیوس موراویکی نے کہا،'' ہمیں ان جارحانہ ہائبرڈ اقدامات کو روکنا ہوگا جو منسک میں لوکا شینکو کے محافظوں کی طرف سے تیار کردہ اسکرپٹ کے تحت کیے جا رہے ہیں۔‘‘ پولش وزیر اعظم نے پولستانی صدر اندریج دودا سے اپیل کی کہ وہ ایمرجنسی کے نفاذ کی درخواست کو منظور کر لیں۔ اس بارے میں صدر دودا منگل کی شام کو کوئی اعلان کرنے والے ہیں تاہم پولستانی وزیر داخلہ نے وزیر اعظم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامی حالات یا ایمرجنسی کے اعلان سے مقامی آبادی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم یہ بیرون ملک سے پولینڈ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد کو سرحد سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر روک دینے کا سبب بن سکتی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر کی کوششیں
حالیہ ہفتوں کے دوران مظاہرین اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے پولینڈ کے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں پھنسے مہاجرین کی مدد کی کوشش کی۔ یہ مہاجرین کئی ہفتوں سے کھلے آسمان کے نیچے، خراب موسم اور دیگر ضروریات زندگی کی شدید قلت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ پولینڈ کا اصرار ہے کہ مہاجرین کا یہ گروپ بیلاروسی سرزمین پر رہ رہا ہے اور ان پناہ گزینوں کو پولینڈ اپنی سرزمین میں داخل نہیں ہونے دے گا نہ ہی انہیں پناہ کی درخواست جمع کرانے کی اجازت دی جائے گی۔
’ملک بدری ختم کرنے کا فیصلہ جرمن حکومت کرے گی‘
دریں اثناء انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں نے ان 32 افغان مہاجرین کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر بیمار ہیں۔ آٹھ افراد گردے کے مریض ہیں اور پانچ اسہال میں مبتلا ہیں۔ اس گروپ میں سب سے زیادہ بیمار اسہال کی شکار ایک 52 سالہ خاتون ہیں جو افغانستان سے اپنے پانچ نسبتاً بڑے بچوں کے ساتھ پناہ کی تلاش میں نکلی ہیں۔
انسانی حقوق کے سرگرم گروپ Fundacja Ocalenie کی ایک کارکن ماریانا وارتیکا کو دری زبان آتی ہے۔ انہوں نے میگافون پر دری زبان میں بقیہ پھنسے ہوئے افغان مہاجرین کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کی لیکن پولینڈ کے سرحدی گارڈز سائرن بجا کر خلل پیدا کرتے رہے اور یہ بات چیت میں رکاوٹ کا باعث رہا۔ ماریانا کا ماننا ہے کہ پولینڈ اور یبلاروس کے سرحدی علاقے میں ایمرجنسی یا ہنگامی حالات کے اعلان کی وجہ سے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو سرحدی علاقوں سے مزید دور جانا پڑے گا۔
ک م/ ع ح ) اے پی، اے ایف پی(