افغان پناہ گزین جرمن لڑکی کے قتل پر پشیماں
10 دسمبر 2016فرائبرگ میں موجود افغانوں کا کہنا ہے کہ جرمن عوام کو تمام افغان افراد کو ایک نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ انہیں خطرہ ہے کہ اس واقعے کے بعد ایسا ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے جرمن پولیس نے ایک سترہ سالہ افغان مہاجر کو اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ اس نے جرمنی کے جنوب مغربی شہر فرائبرگ میں میڈیکل کی ایک انیس سالہ طالبہ کو زنا بالجبر کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ اس لڑکی کی لاش پولیس کو ایک دریا سے ملی تھی۔ اس واقعے پر جرمن عوام کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے، جس کی ایک وجہ افغان لڑکے کا مہاجر ہونا بھی ہے۔ یہ نوعمر گزشتہ برس افغانستان سے ہجرت کر کے جرمنی آیا تھا۔
جرمنی کے قدامت پسند حلقوں، بالخصوص ان سیاست دانوں نے جو ملک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف ہیں، نے اس واقعے کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل پر تنقید کا حوالہ بنایا ہے۔ واضح رہے کہ میرکل دیگر یورپی رہنماؤں کی نسبت مہاجرین کے بارے میں فراخ دلانہ رویہ رکھتی ہیں۔ ان کی حکومت نے شام، عراق، لیبیا اور افغانستان جیسے جنگ زدہ مالک سے یورپ آنے والے لاکھوں افراد کر جرمنی میں پناہ دی ہے۔
سوا دو لاکھ کی آبادی والے شہر فرائبرگ میں ماریہ نامی لڑکی کی ہلاکت کے بعد جرمنی میں مہاجرین کے کردار کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ ماریہ مہاجرین کی مدد کے لیے رضاکارنہ طور پر خدمات بھی سرانجام دیا کرتی تھی۔
فرائبرگ میں جمعرات کے روز افعان مہاجرین نے ماریہ کی یاد میں موم بتیاں جلا کر اسے خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر ایک جرمن خاتون نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم سب بہت غم زدہ ہیں۔ تاہم جو واقعہ پیش آیا اسے ایک فرد کی کارروائی کے طور پر دیکھنا چاہیے اور تمام مہاجرین سے نتھی نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
تاہم حیرت کی بات ہے کہ جرمنوں کے برخلاف افغان مہاجرین ماریہ کے قتل کو افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں سے منسلک کر رہے ہیں۔
اس بارے میں ایک افغان مہاجر ناز خانم کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم شرمندہ ہیں۔ ماریہ مہاجرین کی خدمت کیا کرتی تھی اور آپ دیکھیے کہ ایک مہاجر نے اس کے ساتھ کیا کیا۔‘‘ تاہم اس معمر افغان مہاجر خاتون کا یہ بھی کہنا ہے کہ تمام مہاجرین کو ایک ہی نظر سے دیکھنا بھی درست نہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں، ’’مبینہ قاتل صرف ایک شخص تھا۔‘‘ اس کے بعد خانم نے اپنے دو بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’ان بچوں کا اس صورت حال سے کیا لینا دینا ہو سکتا ہے؟‘‘
مہاجرین کے کردار کے بارے میں بحث میں شدت
پیر کے روز میرکل نے سرکاری نشریاتی ادارے اے آر ڈی سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اگر یہ ثابت ہو گیا کہ افغان مہاجر مجرم تھا تو اس کی اسی طرح مذمت کی جانا چاہیے جیسے کہ کسی دوسرے قتل کے واقعے کی۔‘‘
میرکل کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن اس واقعے کو بنیاد بنا کر ایک پورے گروپ کی مذمت کرنا درست نہیں ہوگا۔ یہ ایک فرد کا عمل ہے۔‘‘
پولیس کا کہنا کہ افغان مہاجر، جسے جمعے کے روز گرفتار کیا گیا، کے ڈی این اے ٹیسٹ سے اس کے ریپ کے واقعے میں ملوث ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔ ایک ویڈیو فوٹیج بھی اس کے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ افغان لڑکے نے اب تک اپنا بیان قلم بند نہیں کروایا ہے۔
قوم پرست جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی کے رہنما یوئرگ میوتھین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ واقعے کے ذمے دار جرمن چانسلر میرکل اور نائب چانسلر زیگمار گابریئل بھی ہیں، ’’ان کو اس واقعے اور ایسے کئی واقعات کی ذمے داری قبول کرنا چاہیے جو کہ جرمنی میں مہاجرین کے بلا روک ٹوک داخلے کے نتیجے میں رونما ہو رہے ہیں۔‘‘
جرمن حکومت کے کئی اعلیٰ عہدے داروں نے طالبہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کی مذمت کی ہے، تاہم جرمنی میں دائیں بازو کی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ صورت حال اگلے برس چانسلر کے عہدے کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔