افغانستان اور عراق ميں امريکی رقوم کا غبن، کميشن رپورٹ
31 اگست 2011امريکہ کی دونوں سياسی جماعتوں، ريپبليکن اور ڈيمو کريٹک پارٹيوں کے موجودہ اور سابقہ اراکين پر مشتمل ايک کميشن کو امريکی کانگريس کو دو سوالات کے جوابات دينا تھے: ٹيکس کے اُن اربوں ڈالر کا کيا بنا، جو خاص طور پر وزارت خارجہ اور وزارت دفاع نے نجی اداروں کو افغانستان اور عراق ميں خدمات انجام دينے کے ليے ادا کيے۔ سوال نمبر دو: ہم اتنے بڑے پيمانے پر فضول خرچی، خيانت اور دھوکہ دہی کو کس طرح روک سکتے ہيں؟ کميشن کی آج پيش کردہ رپورٹ کی کچھ جھلکياں يہ ہيں:
امريکہ نے عراق اور افغانستان ميں 10 برسوں ميں جن منصوبوں کے ليے رقوم ديں، اُن ميں سے کم ازکم ہر چھٹا ڈالر چرا يا اور غائب کر ديا گيا۔ اس طرح کُل تقريباً 30 ارب ڈالر کی رقم غبن کی گئی۔
يہ ايک بہت بڑی رقم ہے ليکن اس غبن اور دھوکہ دہی کے اسباب کا جائزہ اس سے بھی زيادہ دم بخود کر دينے والا ہے۔ جائزے کے مطابق پرائيويٹ فرموں نے امريکی حکومت سے ٹھيکے ملنے کے بعد فوجی تنصيبات اور ہوائی اڈے تعمير کيے۔ سفارتکاروں کی حفاظت ہو يا پھر پيٹرول، اشيائے خوردونوش اور کمپيوٹر سافٹ وئیرز کی فراہمی، امريکی افسروں نے اس سلسلے ميں بہت مبہم قسم کے معاہدے اُس وقت کيے، جب وہ کثير رقوم پہلے ہی نجی فرموں کو ادا کر چکے تھے۔
امريکی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ ميں سستے، متبادل يا زيادہ کارآمد طريقوں کی تلاش پر کوئی توجہ نہيں دی جاتی کيونکہ جنگوں کے ليے ہميشہ ہی کافی پيسہ دستياب رہتا ہے۔ کميشن کے ايک رکن گرانٹ گرين کو يہ معلوم ہے کہ پچھلے چند مہينوں سے اس روش ميں تبديلی آئی ہے۔ ليکن انہوں نے کہا: ’’جب وزارت خارجہ کوئی مشن شروع کرتی ہے تو صرف ايک ہی راستہ ہوتا ہے: پرائيويٹ فرموں کے ذريعے اس کی تکميل۔ وزارت خارجہ کا اندازہ ہے کہ اس سال کے آخر ميں عراق سے امريکی افواج کے بڑے حصے کے انخلاء کے بعد صرف سکيورٹی کے شعبے ہی ميں اُس کی ٹھيکے دار فرموں کی تعداد ،جو اس وقت 2700 ہے، بڑھ کر 7000 تک پہنچ جائے گی۔ ليکن بہت سے دوسرے کام بھی ہيں، جن کے ٹھيکے بھی پرائيويٹ کمپنيوں کو ديے جائيں گے۔‘‘
اس وقت افغانستان اور عراق ميں امريکی حکومت کی طرف سے سونپے گیے کام انجام دينے کے ليے دو لاکھ 60 ہزار نجی کارکن مصروف عمل ہيں۔ ان ميں مقامی ذيلی فرميں اور سابق امريکی فوجيوں کی کمپنياں بھی ہيں، جو تجربے سے يہ جانتے ہيں کہ ان ملکوں ميں حالات کيسے ہيں اور امريکی وزارت دفاع کی بيورو کريسی کے انداز کيا ہيں۔
رپورٹ: زلکے ہاسل مان، واشنگٹن / شہاب احمد صديقی
ادارت: امتياز احمد