افغانستان، حملوں میں نوزائیدہ بچوں اور ماؤں سمیت چالیس ہلاک
13 مئی 2020کابل کے سرکاری ہسپتال پر حملے میں دو نوزائیدہ بچوں، ماؤں اور نرسوں سمیت سولہ لوگ مارے گئے۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق اس حملے میں پندرہ دیگر شہری زخمیبھی ہوئے ہیں جبکہ ہسپتال میں موجود سو کے قریب لوگوں کو بچا لیا گیا۔
حکام کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز نے ایک کئی گھنٹوں جاری رہنے والی جھڑپ کے بعد اس کارروائی میں ملوث تین حملہ آوروں کو بھی مار ڈالا۔
مغربی کابل میں قائم دشتِ بارچی ہسپتال کا زچگی وارڈ ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) چلاتی ہے اور وہاں خدمات سر انجام دینے والوں میں غیرملکی بھی شامل ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ اس ہسپتال پر کس نے حملہ کیا۔ افغان طالبان نے ان حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ کابل میں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ افغانستان میں سرگرم مسلح گرو داعش کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
ماضی میں داعش اور طالبان دونوں ہسپتالوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔ داعش نے دو ہزار سات میں کابل کے مرکزی فوجی ہسپتال پر حملے کی ذمہ داری لی تھی۔ اس حملے میں پچاس لوگ مارے گئے تھے۔
اسی طرح طالبان نے پچھلے سال ستمبر میں زابُل صوبے میں ایک ہسپتال کے باہر بارود سے بھرے ٹرک سے حملہ کیا۔ اس حملے میں بیس لوگ مارے گئے تھے۔
صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ اُن کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسلح گروہوں نے قیام امن کے سلسلے میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ انہوں نے کہا کہ وہ افغان سکیورٹی فورسز کو اِن کے خلاف دوبارہ کارروائیاں شروع کرنے کا احکامات دے رہے ہیں۔
افغانستان میں منگل کو دوسرا بڑا حملہ مشرقی صوبے ننگرہار میں ہوا جہاں ایک خودکش بمبار نے ایک سینئر پولیس کمانڈر کے جنازے میں شریک مجمع میں خود کو دھماکے سےاڑا دیا۔ اس حملے میں چوبیس لوگ ہلاک جبکہ اڑسٹھ زخمی ہوگئے۔ اس حملے کی ذمہ داری ہ داعش نے لی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ان حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ "رمضان کے مقدس مہینے اور کووڈ۔انیس کے خطرے کے دوران یہ حملے تباہ کن ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ جنازے کی نماز میں قطار میں کھڑے سوگواروں پر حملہ کرنے والے دہشتگرد کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا، "بےگناہ لوگوں پر کسی بھی قسم کا حملہ ناقابل معافی ہے۔"
ش ج / ک م (اے پی، ڈی پی اے)