افغانستان: مسجد دھماکے میں درجنوں افراد ہلاک
9 اکتوبر 2021افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں جمعہ کے روز ایک شیعہ مسجد میں دھماکے میں کم از کم پچپن افراد ہلاک ہوگئے۔ اس خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق شیعہ اقلیتی برادری سے بتایا گیا ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ دھماکے کی آواز جامع مسجد گذر سید آباد میں اس وقت سنی گئی جب لوگ دوپہر کی نماز کے لیے وہاں جمع ہوئے تھے۔ قندوز کے ایک استاد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ایک خوفناک حملہ تھا۔ ان کے بقول، ''اس دھماکے میں ان کا ایک سولہ برس کی عمر کا نوجوان ہمسایہ ہلاک ہوگیا، جس کی لاش ابھی تک نہیں ملی۔‘‘
علاوہ ازیں امدادی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق اس حملے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
شیعہ برادری داعش کے نشانے پر
افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہ داعش سے منسلک داعش خراسان (آئی ایس کے پی) نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ماضی میں بھی یہ دہشت گرد تنظیم افغانستان میں شیعہ برادری پر حملے کرتی رہی ہے۔ سنی اکثریتی ملک میں شیعہ آبادی کل آبادی کا تقریباﹰ بیس فیصد بنتی ہے۔
داعش کے اس گروپ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایک خودکش حملہ آور نے 'ہجوم کے درمیان خود کو ایک دھماکہ خیز جیکٹ کے ساتھ دھماکے سے اڑا دیا۔‘ بعد ازاں ایک اور بیان میں بتایا گیا کہ خودکش حملہ آور کا تعلق ایغور مسلم اقلیتی گروپ سے تھا جسے 'طالبان نے افغانستان سے نکالنے کا کہا تھا۔‘
افغان طالبان کے لیے چیلنجز
افغانستان سے امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج کے انخلا کے بعد اس حملے کو سب سے ہولناک حملہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ ملک حالیہ ہفتوں میں کئی مہلک بم دھماکوں کی زد میں رہا ہے جن میں کابل کی ایک مسجد کا حملہ بھی شامل ہے۔
جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل من نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ طالبان اپنے اقتدار کو اُس وقت تک مستحکم نہیں بنا سکتے جب تک وہ افغانستان میں دہشت گردی اور معاشی بحران سے نہیں نمٹ لیتے۔ ان کے بقول، ''طالبان کو ان خدشات کو دورکرنا ہوگا - بصورت دیگر ایک نئی مسلح مزاحمت شروع ہوسکتی ہے۔‘‘
ماہ اگست میں کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغان طالبان اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے کے لیے بھی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں آج امریکی وفد اور طالبان کے اعلیٰ سطحی نمائندے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
واشنگٹن حکومت چاہتی ہے کہ طالبان افغانستان میں انسانی حقوق کی پاسداری کریں اور امدادی تنظیموں کو ملک میں کام کرنے کی رسائی دیں۔
ع آ / ک م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)