افغانستان کے لیےامریکی امداد میں بھاری کمی
24 مارچ 2020افغانستان میں دو حریف رہنماؤں اشرف غنی اورعبداللہ عبداللہ کے درمیان اقتدار کے لیے جاری رسہ کشی کا کوئی فیصلہ نہیں ہونے کے سبب امریکا نے افغانستان کو دی جانے والی مالی امداد میں ایک ارب ڈالر کی کمی کردی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کابل کے اچانک دورے کے بعد یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ان رہنماؤں کے درمیان اقتدار کا یہ جھگڑا امریکی مفاد کے لیے خطرہ ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ چونکہ افغان رہنما اقتدارکی شراکت داری سے متعلق کسی معاہدے پر متفق ہونے میں ناکام رہے ہیں اس لیے امریکا نے افغانستان کو دی جانے والی امداد میں ایک ارب ڈالر کی کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اعلان سے قبل امریکی وزیر خارجہ نے کابل کے ایک غیر اعلانیہ دورے کے دوران صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔ انہوں نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ثالثی کی کوشش کی تاکہ فریقین بات چیت کے ذریعے کسی ایک بات پر متفق ہوجائیں تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ فی الوقت امداد میں ایک ارب ڈالر کی کمی کی جارہی ہے اور آئندہ برس مزید ایک ارب کی کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ افغان رہنماؤں سے ملاقات کے بعد انہوں نے کہا کہ امریکا کو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے کافی مایوسی ہوئی ہے اور ان دونوں نے امریکا افغان تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں رہنماؤں کا سلوک،’’ان افغان، امریکی اور اتحادی ساتھیوں کے لیے توہین آمیز ہے جنہوں نے اس ملک کے نئے مستقبل کی تعمیر کی جد وجہد میں اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔‘‘
گزشتہ برس افغانستان کے صدارتی انتخابات کے بعد صدر اشرف غنی اور ان کے حریف امیدوار عبداللہ عبداللہ دونوں ہی نے اپنی اپنی کامیابی کا دعوی کرتے ہوئے خود کو صدر قرار دے دیا تھا۔جیت کے دعوؤں کے ساتھ ہی دونوں رہنماؤں نے بطور صدر دو مختلف تقریبات میں حلف بھی اٹھا لیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کی سیاست اور فیصلہ سازی کی قوت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور حکومت عملی طور بے اثر ہو کر رہ گئی۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو دونوں صدور کے درمیان اختلافات دور کرنے کے مقصد سے ہی کابل پہنچے تھے تاکہ ان کے درمیان اقتدار کی شراکت داری کا کوئی معاہدہ ہو جائے اور پھر طالبان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کا آغاز ممکن ہو سکے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دونوں رہنماؤں کے آپس میں مل کر کام نہ کرنے کی صورت میں امریکا کے قومی مفادات کو براہ راست خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے افغان قیادت پر یہ بالکل واضح کر دیا ہے کہ ہم ایسے کسی بھی سکیورٹی آپریشن کی حمایت نہیں گریں جس کے پیچھے سیاست کارفرما ہو، اور نہ ہی ایسے سیاسی رہنماؤں کی حمایت کریں گے جو اس طرح کے آپریشن کے حامی ہوں یا پھر ان رہنماؤں کی جو دو متوازی حکومتوں کی حمایت کرتے ہوں۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ جلد ہی افغانستان کے ساتھ اپنے ’تعاون کے دائرہ کار‘ پر نظر ثانی کا آغاز کرے گی۔ انہوں نے کہا، ’’ہم مزید کٹوتی کرنے کے مقصد سے اپنے تمام پروگراموں اور منصوبوں کا از سر نو جائزہ لیں گے اور افغانستان کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے ’ڈونر کانفرنسز‘ منعقد کرانے سے متعلق اپنے وعدوں پر بھی نظر ثانی کریں گے۔‘‘
کابل سے واپسی کے بعد پومپیو نے دوحہ میں طالبان قیادت سے بھی ملاقات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں ہی گزشتہ ماہ طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر عمل کے لیے پوری طرح سے تعان نہیں کر رہے ہیں جبکہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کا مقصد افغانستان میں جاری طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہے۔ پومپیو نے اس موقع پر بین الافغان مذاکرات میں تاخیر کی بات کی اور کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے غیر طالبان وفد کی تشکیل اور قیدیوں کا تبادلہ امن معاہدے کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے مطابق امریکا افغانستان سے اپنے فوجیوں کا انخلاء کے لیے تیار ہے۔
افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کا انحصار ان مذاکرات کی کامیابی کی بجائے طالبان کے اس وعدے پر ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور داعش جیسی تنظیموں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور نیٹو نے اپنے کچھ فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا شروع کر دیا ہے۔
ادھر بین الافغان مذاکرات کو انتہائی مشکل اور پیچیدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں ہی امریکا اپنی تمام تر فورسز افغانستان سے نکالنے کے قابل ہوگا اور انہی مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں اس ملک میں امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)